مون سون بارشوں کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے 84 افراد ہلاک جب کہ 81 ہزار سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں جاری مون سون بارشوں اور سیلاب کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 84 ہو گئی ہے اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی‘ (این ڈی ایم اے) کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے 44 افراد زخمی جب کہ 81 ہزار سے زائد بے گھر بھی ہوئے ہیں۔
اب تک متاثر ہونے والے دیہاتوں کی تعداد 330 سے تجاوز کر چکی ہے اور 4,300 سے زائد مکانات منہدم یا اُنھیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔
این ڈی ایم اے کے چیئرمین سعید علیم نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ آفات سے نمٹنے کے صوبائی اداروں کی تسلی بخش استعداد کی بدولت صورت حال سے نمٹنے کے لیے اس وقت پاکستان کو کسی قسم کی بیرونی امداد درکار نہیں۔
تاہم اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی ہمدردی ’یو این او سی ایچ اے‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مون سون بارشوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کا مسلسل جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں یو این اوچا کی ایک ترجمان حمیرا محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ یا اس سے منسلک دیگر امدادی تنظیموں کی جانب سے تاحال کوئی کارروائیاں شروع نہیں کی گئی ہیں۔
’’ہم تیار ہیں۔ اگر حکومتِ پاکستان کو ہماری مدد درکار ہوئی تو درخواست موصول ہوتے ہی مدد کی فراہمی شروع کر دی جائے گی۔‘‘
حمیرا محبوب نے بتایا کہ این ڈی ایم اے کے حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں سال مون سون بارشوں اور ممکنہ سیلاب سے لگ بھگ 50 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔
’’اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے والی دیگر تنظیموں نے ان ہی اعداد و شمار کی روشنی میں تیاری کر رکھی ہے اور سیلاب کی صورت میں اگر حکومت نے ہم سے مدد طلب کی تو ہم اپنے ہنگامی پلانز پر عمل کریں گے۔‘‘
پاکستان گزشتہ تین برسوں سے مون سون کے دوران سیلابوں کا سامنا کر رہا ہے، اور 2010ء میں ملک کی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب سے لگ بھگ 1,800 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی‘ (این ڈی ایم اے) کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے 44 افراد زخمی جب کہ 81 ہزار سے زائد بے گھر بھی ہوئے ہیں۔
اب تک متاثر ہونے والے دیہاتوں کی تعداد 330 سے تجاوز کر چکی ہے اور 4,300 سے زائد مکانات منہدم یا اُنھیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔
این ڈی ایم اے کے چیئرمین سعید علیم نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ آفات سے نمٹنے کے صوبائی اداروں کی تسلی بخش استعداد کی بدولت صورت حال سے نمٹنے کے لیے اس وقت پاکستان کو کسی قسم کی بیرونی امداد درکار نہیں۔
تاہم اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی ہمدردی ’یو این او سی ایچ اے‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مون سون بارشوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کا مسلسل جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں یو این اوچا کی ایک ترجمان حمیرا محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ یا اس سے منسلک دیگر امدادی تنظیموں کی جانب سے تاحال کوئی کارروائیاں شروع نہیں کی گئی ہیں۔
’’ہم تیار ہیں۔ اگر حکومتِ پاکستان کو ہماری مدد درکار ہوئی تو درخواست موصول ہوتے ہی مدد کی فراہمی شروع کر دی جائے گی۔‘‘
حمیرا محبوب نے بتایا کہ این ڈی ایم اے کے حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں سال مون سون بارشوں اور ممکنہ سیلاب سے لگ بھگ 50 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔
’’اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے والی دیگر تنظیموں نے ان ہی اعداد و شمار کی روشنی میں تیاری کر رکھی ہے اور سیلاب کی صورت میں اگر حکومت نے ہم سے مدد طلب کی تو ہم اپنے ہنگامی پلانز پر عمل کریں گے۔‘‘
پاکستان گزشتہ تین برسوں سے مون سون کے دوران سیلابوں کا سامنا کر رہا ہے، اور 2010ء میں ملک کی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب سے لگ بھگ 1,800 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔