گدھ ماحول کو تعفن اور دیگر جراثیم سے صاف رکھنے کے لیے حیاتیاتی تنوع میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران جنوبی ایشیا میں اس پرندے کی نسل تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے جو کہ ایک تشویشناک امر ہے۔
اس پرندے کی خوراک مردہ جانور کا گوشت اور دیگر باقیات ہوا کرتی ہیں لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ موت سے زندگی کشید کرنے والا پرندہ اب اپنی ہی خوراک سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
اس کی ناپید ہوتی نسل کی وجوہات ماہرین کے بقول ایسے مردہ جانوروں کا گوشت ہے جنہیں بیماری کے دوران ڈیکلوفینک کی دوا دی گئی ہوتی ہے۔ اس گوشت سے گدھ کے گردے ناکارہ ہوجاتے ہیں اور وہ موت کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس امر کی نشاندہی کے بعد اس دوا کے جانوروں میں استعمال پر خطے کے چار ملکوں پاکستان، نیپال، بھارت اور بنگلہ دیش میں پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن اس کے باوجود صورتحال اتنی حوصلہ افزا نہیں۔
رواں ماہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ان چاروں ملکوں کے نمائندہ وفود نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ گدھ کی ناپید ہوتی نسل کی بقا کے لیے مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان اقدامات میں ڈیکلوفینک دوا کے علاوہ ایسی تمام ادویات کے استعمال پر پابندی کو سخت بنانے پر اتفاق کیا گیا جو گدھ کی موت کا سبب بنتی ہیں۔ مزید برآں گدھوں کی افزائش کے لیے انھیں محفوظ خطے اور ماحول فراہم کرنے کے لیے سیف زون بنانے کا ارادہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر کی عہدیدار عظمیٰ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ادارے نے سندھ میں سیف زون قائم کیا ہے جس کا مقصد گدھوں کی افزائش والے علاقوں کے رہائشیوں کے پاس موجود جانوروں کے اعدادوشمار جمع کرنا اور پھر ان لوگوں کو اپنے بیمار جانوروں میں ڈیکلوفینک کے استعمال سے روکنا بھی شامل ہیں۔
عظمیٰ خان کے بقول پنجاب میں چھانگا مانگا کے جنگلات سال 2000 سے پہلے ایشیا میں گدھوں کی سب سے بڑی افزائش گاہ تھے جو کہ اب تقریباً ختم ہوچکی ہے اور اس پرندے کی سفید پشت والی نسل پنجاب میں اب بالکل بھی نظر نہیں آتی ہے۔
’’سفید پشت والے گدھ ہمیں پنجاب میں تو نظر نہیں آئے لیکن ان کی آبادی کچھ تھوڑی بہتر ہوئی ہے اور یہ صرف سندھ کے علاقے ننگر پارکر میں ہے، وہ کہیں اور نہیں نظر آرہے۔‘‘
بھارت میں بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی کے ڈائریکٹر اسد رحمانی بھی گدھ کی ناپید ہوتی نسلوں کے بارے میں متفکر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران اس خطے (بھارت، نیپال اور پاکستان) میں اس پرندے کی تین قسموں کی آبادی 99 فیصد تک کم ہوئی ہے۔
ان کے بقول ان نسلوں میں سفید پشت والے گدھ (وائٹ بیک)، لانگ بِلٹ جنہیں انڈین گدھ بھی کہا جاتا ہے اور پتلی چونچ والے گدھ (سلنڈر بِلٹ) شامل ہیں۔
اسد رحمانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈیکلوفینک دوا کے استعمال پر پابندی کے باوجود ہر سال اس پرندے کی آبادی میں 40 فیصد کی شرح سے کمی واقع ہورہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ہاں گدھوں کی افزائش کے تحفظ کے لیے سنٹرز قائم کیے گئے ہیں جو اس نسل کو ناپید ہونے سے بچانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔