ویانا کنونشن کے تحت امریکی سفارتکار کو استثنٰی حاصل ہے: سابق سفیر

(فائل فوٹو)

پاکستان میں تعینات امریکی سفارت کار کرنل جوزف کا نام تاحال ’ای سی ایل‘ میں نہیں ڈالا جا سکا ہے اور ایک سابق پاکستانی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ویانا کنونشن کے تحت سفارت کاروں کو کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی سے استثنٰی حاصل ہوتا ہے۔

سات اپریل کو امریکی سفارت خانے میں تعینات دفاعی اتاشی کرنل جوزف ایمانیوئل کی گاڑی کی ٹکر سے اسلام آباد میں ایک پاکستانی نوجوان عتیق بیگ ہلاک جب کہ اُن کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار راحیل زخمی ہو گئے تھے۔

پولیس کی طرف سے سفارت کار کا نام ’ای سی ایل‘ یعنی اُن افراد کی فہرست میں شامل کرنے درخواست کی گئی جن پر ملک سے باہر جانے پر پابندی ہوتی ہے۔ لیکن اس درخواست پر ابھی تک پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے رواں ہفتے متعلقہ حکام سے استفسار کیا تھا کہ امریکی سفارت کار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا گیا۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ وزارت کو پولیس کی تفتیشی رپورٹ کا انتظار ہے جس کے بعد ہی اُن کے بقول مزید کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

ترجمان نے سفارتی تعلقات کے حوالے سے ویانا کنونشن کا بھی حوالہ دیا جو کہ سفارتی استثنٰی سے متعلق ہے۔

پاکستان کے سابق سفیر جاوید حفیظ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے سفارت کاروں سے متعلق ویانا کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں، اس لیے اب تک امریکی سفارت کار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

’’ویانا کنونشن کے تحت جو سفارت کار ہیں ان کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے مقامی کریمنل قوانین سے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ سفارت کار جو ہیں وہ لوکل قوانین کی خلاف ورزی کرتے رہیں۔۔۔۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ وہ قانون کا احترام ضرور کریں لیکن اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو مقامی انتظامیہ، پولیس جو ہے وہ ان کو گرفتار نہیں کر سکتی، لوکل عدالتیں جو ہیں ان کو سزا نہیں دے سکتیں۔‘‘

جاوید حفیظ کہتے ہیں کہ سفارتی استثنیٰ ’’سوچ سمجھ کر دیا گیا تھا تاکہ سفارت کار اپنا کام جو کہ بین الاقوامی تعاون بڑھانا اس کو احسن طریقے سے بغیر کسی خوف کے سر انجام دے سکیں اس کیس میں دفتر خارجہ کا جو بیان ہے وہ میرے خیال میں بالکل بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے اور اسے اسی طرح سے سمجھنا چاہیئے۔‘‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ سفارت کار چاہے وہ امریکہ کا ہو یا کسی اور ملک کا ہو ’’اس کو آپ سزا نہیں دے سکتے۔ آپ کی عدالتیں اس کو سزا نہیں دے سکتیں۔ آؤٹ آف دی کورٹ کوئی تصفیہ ہو سکتا ہے۔ کئی اور طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں لیکن ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جو ملک بھیجنا والا ہے یعنی اس کیس میں امریکہ وہ اس سفارت کار کا استثنٰی ختم کرے جس کے امکان بہت کم نظر آتے ہیں۔‘‘

جاوید حفیظ کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستان یہ ہی کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ سفارت کار اسلام آباد چھوڑ دے اور اُن کی جگہ کوئی اور سفارت کار تعینات کر دیا جائے۔

واضح رہے کہ امریکی سفارت خانے کی طرف سے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا جا چکا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستانی حکام سے مکمل تعاون کیا جا رہا ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ ایک روز قبل جمعرات ہی کو پاکستان نے تصدیق کی کہ امریکہ میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کے اقدامات سے متعلق واشنگٹن نے اسلام آباد کو آگاہ کر دیا۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کے مطابق اس معاملے کے حل کے لیے دونوں ممالک کے درمیان رابطے جاری ہیں تاہم اُنھوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا۔