امور خارجہ کے مشیر کا کہنا تھا کہ تمام غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف طاقت استعمال کی جائے گی اور اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ملک کا آئین تسلیم نہ کرنے والے طالبان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
امریکہ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تمام غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف طاقت استعمال کی جائے گی اور اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
’’حکومت نے ابتدا میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن یہ بہت مشکل ثابت ہوئے، لہذا دوسرا راستہ طاقت کا استعمال ہے۔ ۔ ۔ جس پر اب زیادہ سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔‘‘
حکومت نے گزشتہ ستمبر میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے سے ملک میں قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حالیہ مہینوں میں شدت پسندوں کی طرف سے خصوصاً سکیورٹی فورسز پر ہلاکت خیز حملوں سمیت دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافے کے بعد ان کے خلاف طاقت کے استعمال کے مطالبات بھی بڑی شدت سے سامنے آئے ہیں۔
لیکن بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں اب بھی مذاکرات کے ذریعے معاملے کے حل پر زور دے رہی ہیں۔
پاکستان کے مشیر خارجہ ان دنوں میں اسٹریٹیجک مذاکرات کے لیے امریکہ میں ہیں اور منگل کو واشنگٹن میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانسڈ اسٹیڈیز میں حاضرین سے خطاب میں انھوں نے دوطرفہ تعلقات اور خطے کے اہم امور کا تذکرہ کیا۔
انھوں نے پاک امریکہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مثبت اور مستحکم راہ پر آچکے ہیں۔
مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کا ذکر کرتے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کے لیے توانائی، خصوصاً دیامر بھاشا ڈیم کے لیے امریکی معاونت اولین ترجیح ہے جب امریکی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی بھی دلچپسی کے اہم امور میں بات چیت میں شامل تھے۔
ان کے بقول آنے والے دنوں میں ان شعبوں میں ٹھوس پیش رفت ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سلامتی اور دفاع کے شعبوں میں تعاون دو طرفہ تعلقات کا اہم جز ہیں لیکن ان کے بقول پاکستانی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے ایک ایسا معاملہ ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان کی ترقی کے لیے تعاون اور شراکت داری جاری رکھے گا جو کہ ان کے بقول دونوں ملکوں کے تعلقات کا ایک اہم جز ہے۔
امریکہ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تمام غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف طاقت استعمال کی جائے گی اور اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
’’حکومت نے ابتدا میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن یہ بہت مشکل ثابت ہوئے، لہذا دوسرا راستہ طاقت کا استعمال ہے۔ ۔ ۔ جس پر اب زیادہ سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔‘‘
حکومت نے گزشتہ ستمبر میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے سے ملک میں قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حالیہ مہینوں میں شدت پسندوں کی طرف سے خصوصاً سکیورٹی فورسز پر ہلاکت خیز حملوں سمیت دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافے کے بعد ان کے خلاف طاقت کے استعمال کے مطالبات بھی بڑی شدت سے سامنے آئے ہیں۔
لیکن بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں اب بھی مذاکرات کے ذریعے معاملے کے حل پر زور دے رہی ہیں۔
پاکستان کے مشیر خارجہ ان دنوں میں اسٹریٹیجک مذاکرات کے لیے امریکہ میں ہیں اور منگل کو واشنگٹن میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانسڈ اسٹیڈیز میں حاضرین سے خطاب میں انھوں نے دوطرفہ تعلقات اور خطے کے اہم امور کا تذکرہ کیا۔
انھوں نے پاک امریکہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مثبت اور مستحکم راہ پر آچکے ہیں۔
مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کا ذکر کرتے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کے لیے توانائی، خصوصاً دیامر بھاشا ڈیم کے لیے امریکی معاونت اولین ترجیح ہے جب امریکی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی بھی دلچپسی کے اہم امور میں بات چیت میں شامل تھے۔
ان کے بقول آنے والے دنوں میں ان شعبوں میں ٹھوس پیش رفت ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سلامتی اور دفاع کے شعبوں میں تعاون دو طرفہ تعلقات کا اہم جز ہیں لیکن ان کے بقول پاکستانی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے ایک ایسا معاملہ ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان کی ترقی کے لیے تعاون اور شراکت داری جاری رکھے گا جو کہ ان کے بقول دونوں ملکوں کے تعلقات کا ایک اہم جز ہے۔