پاک امریکہ تجارت کا فروغ، ’ٹیفا‘ ایکشن پلان پر دستخط

فائل

’پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سیکورٹی ضروریات کے گرد گھومتے رہے ہیں؛ اور یہ کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی یہ کوشش رہے گی کہ اس تعلق کو حقیقی معنوں میں تجارتی اور معاشی تعلق میں بدلا جائے‘: خرم دستگیر خان
پاکستان کے وزیرِ تجارت و کاروبار، خرم دستگیر خان اور امریکہ کے تجارت کے نمائندہ خصوصی، مائکل فرومین نے تجارت اور سرمایہ کاری کے ’فریم ورک‘ سے متعلق سمجھوتے (ٹیفا) کے تحت ایک ایکشن پلان پر دستخط کیے، جس میں زراعت، پارچہ جات کی صنعت اور دیگر شعبوں میں تجارت بڑھانے پر کام کیا جائے گا۔

’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، وزیرِ کامرس نے کہا کہ ’ٹیفا‘ پر کام 10 سال قبل شروع ہوا، لیکن اب یہ فورم متحرک ہوگیا ہے۔

بقول اُن کے، ’ہم نے اس ایکشن پلان میں کہا ہے کہ پاکستان WTO کی شقوں پر دستخط کرکے اس سلسلے کا حصہ بنے گا، جس کے ذریعے امریکی حکومت اپنے لیے خریداری کرتی ہے۔ اس طرح پاکستانی کمپنیاں امریکی حکومت کو اپنا سامان بیچ سکیں گی‘۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’ساتھ ہی ہم نے بات کی ہے کہ پاکستانی مصنوعات کی امریکی منڈی میں رسائی کو کس طرح سے بہتر بنایا جائے؛ اور یہ کہ پاکستانی خواتیں کو معاشی طور پر مضبوط بنانا، اس کاوش کا ایک اور اہم حصہ ہے‘۔

امریکہ اور پاکستان نے پاکستانی خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لیے ایک یادداشت نامے (ایم او یو) پر بھی دستخط کیے ہیں۔

خرم دستگیر خان نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سیکورٹی ضروریات کے گرد گھومتے رہے ہیں؛ اور یہ کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی یہ کوشش رہے گی کہ اس تعلق کو ’حقیقی معنوں میں تجارتی اور معاشی تعلق میں بدلا جائے‘۔

پاکستان کے لیے امریکی امداد 2010ءکے مقابلے میں اب 4.5 ارب ڈالر سے کم ہو کر تقریباً 1 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔

امریکی تھنک ٹینک، اٹلانٹک کونسل سے وابستہ شجاع نواز کہتے ہیں کہ اچھی بات ہے کہ پاکستان تجارت کے ذریعے اس کمی کو پورا کرے۔ لیکن، یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔

اُن کے الفاظ میں: ’امریکہ میں اس وقت وہ تگڑی حکومت نہیں ہے، نہ میں وہ لیڈرشپ دیکھ رہا ہوں۔ نہ وائٹ ہاوٴس میں نہ کسی اور ادارے میں جو کہ ایسے مسائل کو کانگریس کے سامنے پیش کرے، اور اس کے لیے، جدوجہد کرے۔ جب تک وہ نہیں ہوگی، میں سمجھتا ہوں پاکستان کو خود یہ کام کرنا پڑے گا۔‘

مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے ملک میں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے امریکہ کے اراکینِ کانگریس اور سینیٹ کو یہ پتہ چلے کہ پاکستان اپنے معاملات درست کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔

شجاع نواز کے مطابق، ’ابھی ایک جھلک دیکھائی ہے کہ دونوں ملکوں نے ٹیفا پر ایک ایکشن پلان بنایا ہے۔ یہ ابھی تک صرف ایک امید ہی ہے۔ اس کو حقیقت بنانے میں شائد اگلے پانچ یا دس سال لگ جائیں۔ لیکن، یہ شروعات ہے، اور میں سمجھتا ہوں، کہ اس وزیر (خرم دستگیرخان) اور اس حکومت کے لیے کافی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے 10 سال کے بعد کچھ تحرک پیدا کیا ہے۔‘

وزیر کے مطابق، امریکہ اور پاکستان میں قیمتی پتھروں، ماربل، پراسسڈ فوڈ اور آئی ٹی کے شعبوں میں ایکسپورٹ بڑھانے کی کافی گنجائش ہے۔ اور آئی ٹی سروسز کو ایکشن پلان میں شامل کیا گیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان میں تجارت بڑھانے کے لیے درپیش مسائل پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر کامرس نے کہا کہ افغانستان پاکستانی معیشت کا باقائدہ حصہ ہے۔ لیکن سب سے بڑی مشکل افغانستان اور پاکستان میں تجارت کا زیریں ڈھانچہ ہے۔

اُن کے بقول، موجودہ حالت میں جتنی تجارت کی جا سکتی تھی، ہم وہ نتائج حاصل کر چکے ہیں۔ اور افغانستان اس وقت پاکستان کی ڈالر ایکسپورٹ کے لیے تیسری بڑی منڈی ہے۔ اسے مزید بڑھایا جا سکتا ہے، اگر ہم بارڈر کے دونوں طرف اپنا انفراسٹرکچر بہتر کرلیں۔

’دونوں ملکوں کے بینکاری کے نظام میں کوئی تعلق نہیں ہے، اور یہ ایک بہت بڑا ایشو ہے۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار افغان حکومت کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بینکنگ سسٹم استوار کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

بھارت کے ساتھ تجارت کے معاملے پر بات کرتے ہوئے، وزیرِ کامرس کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ دونوں ممالک کی طرف سے کاروبار سے منسلک افراد کو ویزوں کے اجرا میں درپیش رکاوٹیں ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے باہمی اعتماد کو بڑھانا ہوگا۔

شجاع نواز کے مطابق، پاکستان اور بھارت اگر تجارتی تعلق مضبوط کرلیں، تو باقی اختلاف بھی حل ہو سکتے ہیں۔ اس سے، ہندوستان اور پاکستان میں جو متوسط اور چھوٹی سطح کے انٹرپرائزز ہیں، جب ان کو بین سرحدی تجارت کا موقع ملے گا اور کیونکہ دوردراز ممالک کے ساتھ تجارت کے مقابلے میں کراس بارڈر ٹریڈ ارزاں ہوتا ہے۔ تو اس کا پیمانہ اتنا بڑا ہوجائے گا کہ پھر دونوں ممالک کے درمیان جنگ یا تضاد پیدا کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ کیونکہ، بارڈر کے دونوں طرف ایسے گروپس ہوں گے جن کے مفادات ہوں گے۔ وہ چاہیں گے کہ ایک دوسرے پر انحصار قائم رہے۔

وزیر کامرس پانچ روزہ دورے پر پیر کو واشنگٹن پہنچے تھے۔ اس دورے میں خرم دستگیر خان امریکی انتظامیہ اور وفاقی ارکان کے علاوہ، امریکی چیمبر آف کامرس اورIFC کے عہدے داروں سے بھی ملیں گے۔