پاکستان امریکہ اسٹریٹیجک مذاکرات 29 فروری کو ہوں گے

فائل فوٹو

بدھ کو دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ مذاکرات میں پاکستانی وفد کی سربراہی مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ جان کیری کریں گے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان چھٹے وزارتی سطح کے اسٹریٹیجک مذاکرات رواں ماہ کے اواخر میں ہونے جا رہے ہیں۔

بدھ کو دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ مذاکرات 29 فروری کو واشنگٹن میں ہوں گے جس میں پاکستانی وفد کی سربراہی مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ جان کیری کریں گے۔

مذاکرات میں معیشت و اقتصادیات، توانائی، تعلیم و سائنس و ٹیکنالوجی، نفاذ قانون و انسداد دہشت گردی، سلامتی و اسٹریٹیجک استحکام، جوہری عدم پھیلاؤ اور دفاع کے شعبوں میں تعاون پر بات چیت ہو گی۔

بیان کے مطابق بدھ کو اسلام آباد میں مشیر خارجہ کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوا جس میں گزشتہ مذاکرات کے بعد ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے علاوہ آئندہ بات چیت کی تیاری سمیت دو طرفہ شراکت داری بشمول تجارتی و سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کو مزید مضبوط کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک مذاکرات کا سلسلہ 2010ء میں شروع ہوا تھا لیکن 2011ء میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی اسپیشل فورسز کے ایک خفیہ آپریشن کے بعد جہاں دوطرفہ تعلقات میں تناؤ آیا وہیں مذاکراتی عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔

بعد ازاں حالات تو معمول پر آنا شروع ہو گئے لیکن مذاکراتی سلسلہ 2014ء میں بحال ہوا اور گزشتہ سال کے اوائل میں اس کا پانچواں دور اسلام آباد میں منعقد ہوا۔

2013ء میں نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ تیسرے اسٹریٹیجک مذاکرات ہوں گے۔

دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق گزشتہ اکتوبر میں وزیراعظم کے دورہ امریکہ نے مذاکراتی عمل کو مہمیز اور ان کی راہ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود مختلف شعبوں میں تعاون اور معاونت کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

رواں ماہ ہی امریکہ نے پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیارے اور دیگر جدید فوجی سازو سامان فروخت کرنے کی منظوری دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی استعداد کار میں اضافہ ہوگا جو حکام کے بقول خود امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں بھی ہے۔