امریکہ سینیٹ کے چار رکنی وفد کے حالیہ دورہ پاکستان کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کو مختلف باہمی معاملات کے بارے میں ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان مکین کی سربراہی میں وفد نے ہفتے کی شب پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی جب کہ اتوار کو نا صرف وہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان گئے بلکہ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سے بھی تفصیلی ملاقات کی۔
ماضی قریب تک ملکی اور غیر ملکی جنگجوؤں کے گڑھ سمجھے جانے والے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے دورے کے بعد سینیٹر مکین نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فورسز کو ملنے والی کامیابیوں کو سراہا۔
جان مکین نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ ان کے وفد کی ملاقات اچھی رہی، جس میں علاقائی سلامتی کے چیلنجوں پر بات ہوئی۔
پاکستان نے جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا اور عسکری حکام کے مطابق اس قبائلی علاقے میں اب دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔
تجزیہ کار ظفر جسپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس دورے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اب بھی پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔
" یہ دورہ اس لیے اہم ہے کہ یہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں نچلی سطح پر آئے ہیں، اس دورے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اب بھی اپنے اسٹرٹیجک تناظر میں پاکستان کو اہمیت دیتا ہے۔‘‘
پاکستان مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے امریکی وفد سے ملاقات کے بعد سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات پر بھی تفصیلی بات چیت کی گئی۔
" تمام نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہیں اس کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ آپ یہ مت سمجھیں کہ ہمارے بھارت کے ساتھ جومعاہدے ہو رہے ہیں جو تعاون ہو رہا ہے اس کی اثر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر پڑے گا پاکستان کی اہمیت اپنی جگہ ہے"۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ امریکی وفد سے ملاقات میں افغانستان کی موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
"انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان کے حوالے پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ افغانستان کا امن اس خطے کے لیے بہت ضروری ہے، میں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہونے چاہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا اور ہم بڑے خلوص کے ساتھ افغانستان میں امن کا جو عمل ہے اس کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اس کو سراہا جانا ضروری ہے اسی لیے ہم اپنی طرف سے کوشش کر رہے اور تمام چار رکنی ملک بھی کوشش کر رہے ہیں" ۔
امریکی سینیٹ کے وفد نے ایک ایسے وقت پاکستان کا دور کیا جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کچھ تناؤ ہے۔ امریکہ میں کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور انہیں تشدد سے باز رکھنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے مئی میں صوبہ بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں طالبان کے امیر ملا منصور کی ہلاکت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے دو طرفہ تعلقات کو دھچکا لگا ہے۔
اس کے علاوہ امریکی کانگریس کی طرف سے پاکستان کو آٹھ ایف 16 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی لیے فراہم کی جانے والی مالی اعانت روکے جانے کے اثرات بھی دو طرفہ تعلقات پر پڑے ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ بہت سے معاملات پر مختلف نقطہ نظر ہونے کے باوجود امریکی وفد کا دورہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ہی ملک ایک دوسرے سے تعاون کے خواہاں ہیں۔