سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں کہ سلامتی سے متعلق امور دوطرفہ تعاون کے علاوہ امریکہ کو سماجی شعبے خاص طور پر تعلیم کے فروغ کے لیے پاکستان کی معاونت کرنی چاہیئے۔
اسلام آباد —
امریکہ کے صدر براک اوباما کی دوسری مدت صدارت کے آغاز پر پاکستان میں قانون سازوں اور تجزیہ کاروں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ آئندہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مصالحت کی کوششوں اور پھر 2014ء کے اختتام پر وہاں سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے پاکستان کا کردار نمایاں ہے اس لیے توقع ہے کہ اس عرصے کے دوران اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان موثر قریبی روابط برقرار رہیں گے۔
اس بارے میں تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’(امریکہ) چاہتا ہے کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں استحکام آئے اس کے لیے بھی پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ خاص طور افغان حکومت اور طالبان کے مابین مصالحت کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کے لیے بھی امریکہ چاہے گا کہ وہ پاکستان سے رابطے برقرار رہیں۔
’’پاکستان کی اقتصادی استحکام میں بھی امریکہ کی دلچسپی ہے اور پاکستان کو اس کی تعاون کی ضرورت ہے.... امریکہ کا ایک اور انٹریسٹ اس علاقے میں قائم رہے گا اور وہ ہے انڈیا پاکستان تعلقات کی بہتری۔‘‘
حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں کہ حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور علاقائی صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور امریکہ کا قریبی تعاون نا گزیر ہے۔
’’ہمیں اُمید ہے کہ آئندہ آنے والے جو سال ہیں وہ کافی بہتر ہوں گے اور خاص طور پر افغانستان سے نیٹو فورسز کا جو انخلاء ہونا ہے وہ اچھے طریقے سے ہو۔‘‘
سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں کہ سلامتی سے متعلق اُمور پر دو طرفہ تعاون کے علاوہ امریکہ کو سماجی شعبے خاص طور پر تعلیم کے فروغ کے لیے پاکستان کی معاونت کرنی چاہیئے۔
’’جو دو مرکزی مسائل ہیں، ہماری صحت اور تعلیم کے اس میں تعاون کو وسعت دی جائے، اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو تعلیم کو فروغ دینا ہو گا، اس میں وہ (امریکہ) جتنی معاونت کر سکتا ہے وہ کرنی چاہیئے۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے صدر براک اوباما کے نام اپنے تہنیتی پیغام میں کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ انتہائی اہمیت دیتا ہے اور اچھے دو طرفہ تعلقات دونوں ملکوں کے عوام کے مشترکہ مفاد میں ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ دیگر شعبوں کے علاوہ گہرے اقتصادی تعلقات کا خواہاں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مصالحت کی کوششوں اور پھر 2014ء کے اختتام پر وہاں سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے پاکستان کا کردار نمایاں ہے اس لیے توقع ہے کہ اس عرصے کے دوران اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان موثر قریبی روابط برقرار رہیں گے۔
اس بارے میں تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’(امریکہ) چاہتا ہے کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں استحکام آئے اس کے لیے بھی پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ خاص طور افغان حکومت اور طالبان کے مابین مصالحت کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کے لیے بھی امریکہ چاہے گا کہ وہ پاکستان سے رابطے برقرار رہیں۔
’’پاکستان کی اقتصادی استحکام میں بھی امریکہ کی دلچسپی ہے اور پاکستان کو اس کی تعاون کی ضرورت ہے.... امریکہ کا ایک اور انٹریسٹ اس علاقے میں قائم رہے گا اور وہ ہے انڈیا پاکستان تعلقات کی بہتری۔‘‘
حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں کہ حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور علاقائی صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور امریکہ کا قریبی تعاون نا گزیر ہے۔
’’ہمیں اُمید ہے کہ آئندہ آنے والے جو سال ہیں وہ کافی بہتر ہوں گے اور خاص طور پر افغانستان سے نیٹو فورسز کا جو انخلاء ہونا ہے وہ اچھے طریقے سے ہو۔‘‘
سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں کہ سلامتی سے متعلق اُمور پر دو طرفہ تعاون کے علاوہ امریکہ کو سماجی شعبے خاص طور پر تعلیم کے فروغ کے لیے پاکستان کی معاونت کرنی چاہیئے۔
’’جو دو مرکزی مسائل ہیں، ہماری صحت اور تعلیم کے اس میں تعاون کو وسعت دی جائے، اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو تعلیم کو فروغ دینا ہو گا، اس میں وہ (امریکہ) جتنی معاونت کر سکتا ہے وہ کرنی چاہیئے۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے صدر براک اوباما کے نام اپنے تہنیتی پیغام میں کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ انتہائی اہمیت دیتا ہے اور اچھے دو طرفہ تعلقات دونوں ملکوں کے عوام کے مشترکہ مفاد میں ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ دیگر شعبوں کے علاوہ گہرے اقتصادی تعلقات کا خواہاں ہے۔