پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے سنیٹ کو بتایا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے اپنے ٕمختصر دورہ پاکستان کے دوران 75 دہشت گردوں اور تنظیموں کی ایک فہرست پاکستان کے حوالے کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ تاہم اس فہرست میں جماعت الدعویٰ کے امیر حافظ سعید کا نام شامل نہیں ہے۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ اس میں سر فہرست افغانستان میں بنیاد پزیر حقانی نیٹ ورک کا نام ہے جس پر بہت سے افراد کو اغوا کرنے اور افغانستان میں امریکی مفادات پر حملے کرنے کا الزام ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو مطلوب افراد کی فہرستیں فراہم کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے جس کے بدلے وہ مزید رعایتوں کا مطالبہ کرتا ہے اور اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔
خواجہ آصف نے سنیٹ کو بتایا کہ امریکہ کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ اب افغانستان کے طالبان پر پاکستان کا وہ کنٹرول نہیں ہے جو ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ اب نہ تو پاکستان اُن کی حمایت کرتا ہے اور نہ ہی اُنہیں پاکستان سے کسی مدد کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اب کوئی اور فریق اُن کی مدد کر رہا ہے۔ تاہم اُنہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔
فہرست میں شامل افراد کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس میں طالبان کے اہم راہنماؤں کو جو نام شامل کئے گئے ہیں وہ یا تو افغانستان کے کچھ صوبوں کے شیڈو گورنر ہیں یا پھر اب زندہ نہیں رہے۔
سنیٹ میں اس وضاحت سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کئی برسوں میں اس قدر برف جم چکی ہے کہ اس کے پگھلنے کیلئے وقت درکار ہو گا۔
امریکی وزیر خارجہ کے چار گھنٹے کے انتہائی مختصر دورہ پاکستان کے بعد بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جو راتوں رات ختم نہیں ہو گا۔ تاہم اسے بہتر بنانے کے سلسلے میں جو کوششیں ہو رہی ہیں، اُنہیں دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم درست سمت میں جا رہے ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہم 70 ہزار جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان اُٹھا چکے ہیں۔ ہمارا پر امن کلچر اور برداشت پر مبنی معاشرہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ لہذا اس سے زیادہ برے نتائج امریکہ ہمیں کیا بھگتوائے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ دوستی نبھانے کے حوالے سے ہمیں جو نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں، فی الوقت ہم اُنہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ہماری قوم مکمل طور پر متحد ہے اور اللہ ہماری مدد کر رہا ہے۔
امریکی دھمکیوں کے حوالے سے خواجہ آصف نے واضح کیا کہ صورت حال دھمکی کی زبان کے بجائے صلح کی زبان سے بہتر ہو گی۔
اُنہوں نے کہا کہ ہمارا محفوظ ٹھکانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ افغانستان میں 45 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے جہاں افغان حکومت کی عملداری نہیں ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ یہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی ناکامیوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے اور دہشت گرد ان محفوظ ٹھکانوں سے نہ صرف پاکستان میں حملوں کی منصوبہ کرتے ہیں بلکہ وہ افغانستان کے اندر بھی دہشت گرد کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ یوں امریکہ کو یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ اُس نے گزشتہ 16 برس میں افغانستان میں کیا کارنامے سرانجام دئے ہیں۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ عزت و وقار کی بنیاد پر دوستی جاری رکھنا چاہتے ہیں اور یہ تاثر غلط ہے کہ ہم محض اسلحہ یا معاشی امداد کے خواہشمند ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ سے کسی قسم کی مادی امداد نہیں چاہتا۔ بلکہ ایسے تعلقات چاہتا ہے جس میں وہ ہماری عزت کریں اور ہم اُن کی۔
اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات 70 برس پر محیط ہیں اور ہم اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔