پاکستان اور امریکہ کے حکام نے افغانستان میں امن کے قیام اور خطے کی مجموعی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور امریکہ کی معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز امن عمل کو آگے بڑھانے کی کاوشوں کے سلسلے میں پیر کو کابل سے اسلام آباد پہنچیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے درمیان وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں پاکستانی وفد کی قیادت وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے امریکہ آفتاب کھوکھر نے کی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق زلمے خلیل زاد کا یہ دورہ افغان امن اور مفاہمت کے لیے بین الاقوامی حمایت کے حصول کی کوششوں کا حصہ ہے۔
Ambassador @US4AfghanPeace and Ambassador Alice Wells held delegation level talks at #MoFA today. Pakistan side consisted of interagency delegation led by Mr. Aftab Khokhar, Additional Secretary (Americas). pic.twitter.com/LsS2tjhMhf
— Dr Mohammad Faisal (@ForeignOfficePk) April 29, 2019
امن کے لیے جنگ بندی ضروری ہے
زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ اگر افغانستان میں امن لانا ہے تو طالبان کو اپنا طریقہ کار بدل کر جنگ بندی پر اتفاق کرنا ہو گا۔
دورہ کابل کے دوران افغان نیوز چینل طلوع نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اپنی شرائط لاگو کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کا مطلب امن کی بجائے جنگ جاری رکھنا سمجھا جائے گا۔
زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ان کی تمام تر توجہ دہشت گردی کے خاتمے پر ہے۔ مستقل جنگ بندی کے بغیر دیرپا سمجھوتہ طے نہیں پا سکتا۔ ان کے بقول امن کے ذریعے ہم غیر ملکی افواج کو افغانستان سے انخلا کا موقع دینا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ 14 ہزار امریکی فوجی نیٹو افواج کا حصہ ہیں جن کا مقصد افغانستان کی مقامی فورسز کو تربیت اور معاونت فراہم کرنا ہے۔
افغان لویہ جرگہ کا اجلاس
زلمے خلیل زاد کا جنگ بندی سے متعلق بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک روز بعد افغانستان میں لویہ جرگہ شروع ہو رہا ہے۔ لویہ جرگہ افغانستان کے مختلف قبائل پر مشتمل افراد کا ایک مشاورتی اجتماع ہے جس میں دو ہزار سے زائد عمائدین، علما اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی نمائندے عمر داؤد زئی کا اتوار کو ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ لویہ جرگہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار کرے گا۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سمیت کئی اعلیٰ افغان عہدیداروں نے چار روزہ لویہ جرگہ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔
عبداللہ عبداللہ کا گلہ ہے کہ لویہ جرگہ کے انعقاد سے قبل ان کی ٹیم سے اس سے متعلق مشاورت نہیں کی گئی تھی۔
تاہم صدر اشرف غنی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ وہ عبداللہ عبداللہ اور دیگر عہدیداروں کو لویہ جرگہ میں شرکت پر قائل کر لیں گے۔
صدر اشرف غنی نے ہفتے کو زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی تھی جس میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔
یہ بیان امریکہ، روس اور چین کے ایک مشترکہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس پر انہوں نے افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا اور تمام افغانوں کی شرکت کے ساتھ افغان امن عمل پر اتفاق کیا ہے۔
خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کر چکے ہیں۔ اب وہ طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
طالبان تاحال کابل حکومت سے بات چیت پر آمادہ نہیں ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ وہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا سے پہلے کابل حکومت سے بات نہیں کریں گے۔
خلیل زاد افغان امن کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بار پھر خطے کے دورے پر ہیں اور وہ اس دوران قطر بھی جائیں گے جہاں طالبان وفد کے ساتھ ان کی ملاقات متوقع ہے۔
امریکہ کے خصوصی نمائندے نے کہا ہے کہ واشنگٹن افغانستان میں اپنے اخراجات اور اپنی فورسز کو لاحق خطرات کے خاتمے کا خواہاں ہے۔