مسودے کے ایک حصے میں یہ طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو فوجی اور اقتصادی شعبوں میں دی جانے والی امداد کیسے دی جائے۔
امریکی کانگریس میں پیش کیے گئے بجٹ مسودے میں ذرائع کے مطابق پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے دی جانے والی سالانہ تین کروڑ تیس لاکھ ڈالر کی رقم کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کیا گیا ہے۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ اس رقم کو اُس وقت تک روک کے رکھے جب تک کہ امریکی وزیر خارجہ کانگریس میں یہ رپورٹ پیش نہیں کرتے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کر دیا گیا ہے اور اُن کے خلاف اسامہ بن لادن کی رہائی سے متعلق امریکہ کی معاونت کے بارے میں تمام الزامات ختم نہیں کر دیے جاتے۔
بعض اطلاعات کے مطابق مسودے کے ایک حصے میں یہ طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو فوجی اور اقتصادی شعبوں میں دی جانے والی امداد کیسے دی جائے۔ اس مسودے میں یہ تجویز بھی کیا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ وضع کردہ اہداف پورے نا کرنے پر پاکستان کے لیے مختص امداد کو معطل کر سکتے ہیں۔
امریکی حکام اس سے قبل بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ پاکستانی عہدیداروں سے ملاقاتوں میں اُٹھاتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے موقع پر ایوان نمائندگان کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ ایڈ روئس نے بھی شکیل آفریدی کی رہائی پر بات کی تھی۔
تاہم پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے مستقبل کا فیصلہ عدالت ہی کر ے گی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی پشاور جیل میں قید ہیں، اُنھیں دو مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں کی یکطرفہ کارروائی میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن پر یہ الزام بھی تھا کہ اُنھوں نے اسامہ بن لادن کی شناخت اور ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی۔
شکیل آفریدی کو بعد میں خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت نے مقامی شدت پسند تنظیم سے راوبط اور اُنھیں مالی معاونت فراہم کرنے پر 33 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ اس رقم کو اُس وقت تک روک کے رکھے جب تک کہ امریکی وزیر خارجہ کانگریس میں یہ رپورٹ پیش نہیں کرتے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کر دیا گیا ہے اور اُن کے خلاف اسامہ بن لادن کی رہائی سے متعلق امریکہ کی معاونت کے بارے میں تمام الزامات ختم نہیں کر دیے جاتے۔
بعض اطلاعات کے مطابق مسودے کے ایک حصے میں یہ طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو فوجی اور اقتصادی شعبوں میں دی جانے والی امداد کیسے دی جائے۔ اس مسودے میں یہ تجویز بھی کیا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ وضع کردہ اہداف پورے نا کرنے پر پاکستان کے لیے مختص امداد کو معطل کر سکتے ہیں۔
امریکی حکام اس سے قبل بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ پاکستانی عہدیداروں سے ملاقاتوں میں اُٹھاتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے موقع پر ایوان نمائندگان کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ ایڈ روئس نے بھی شکیل آفریدی کی رہائی پر بات کی تھی۔
تاہم پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے مستقبل کا فیصلہ عدالت ہی کر ے گی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی پشاور جیل میں قید ہیں، اُنھیں دو مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں کی یکطرفہ کارروائی میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن پر یہ الزام بھی تھا کہ اُنھوں نے اسامہ بن لادن کی شناخت اور ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی۔
شکیل آفریدی کو بعد میں خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت نے مقامی شدت پسند تنظیم سے راوبط اور اُنھیں مالی معاونت فراہم کرنے پر 33 سال قید کی سزا سنائی تھی۔