لیون پنیٹا کے پاکستان مخالف بیانات 'مسترد'

دفترخارجہ کے ترجمان معظم احمد خان

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے رواں ہفتے کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی خطے میں حقانی نیٹ ورک کے زیر استعمال پناہ گاہوں کے خلاف پاکستان کو کارروائی کرنا ہو گی کیوں کہ اس معاملے پر ان کے بقول امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔

پاکستان نے امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کی طرف سے ملک میں ’’دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں‘‘ سے متعلق بیان کو سختی سے مسترد کیا ہے۔

وزارت خارجہ کی طرف سے ہفتہ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پیچیدہ مسئلے کے حل کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کو امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے انتہائی سہل بیان کیا ہے۔ جب کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ اس معاملے کو کلی طور پر افغانستان میں امن و استحکام اور سرحدی علاقوں کی صورت حال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے رواں ہفتے کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی خطے میں حقانی نیٹ ورک کے زیر استعمال پناہ گاہوں کے خلاف پاکستان کو کارروائی کرنا ہو گی کیوں کہ اس معاملے پر ان کے بقول امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔

انھوں نے اپنے بیانات میں پاکستان پر شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرے نے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بیان مین کہا کہ ایسے بیانات خطے میں امن و استحکام کی کوششوں کے لیے ہر گز مددگار ثابت نہیں ہوں گے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان بار ہا یہ کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف ہر گز استعمال نہیں ہونے دے گا اور نا ہی اپنی سرحدی حدود میں شدت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہ بنانے کی اجازت دی جائے گی۔

امریکی وزیردفاع لیون پنیٹا

’’پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے قومی مفاد میں لڑ رہا ہے اور اس کے عزم و ارادے پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئیے۔‘‘

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور وہ اپنی ’’ٹائم لائن‘‘ یا نظام الاوقات کے مطابق کام کرے گا۔

امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا کے حال ہی میں دورہ بھارت اور افغانستان کے دوران پاکستان پر تنقیدی بیانات پر واشنگٹن میں پاکستان کی سفیر شیری رحمٰن بھی کہہ چکے ہیں کہ اس طرح کے بیانات دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔

وزارت خارجہ کی طرف سے اس ردعمل کا اظہار ایسے وقت کیا گیا جب پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے لیے اسلام آباد میں مذاکرات کئی ہفتوں سے جاری ہیں۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ بات چیت میں شمولیت کے لیے امریکی محکمہ دفاع پرنسپل ٹپٹی اسٹنٹ سیکریٹری برائے امور ایشیا پیٹر لیوائے بھی جمعہ پاکستان پہنچے ہیں۔

امریکہ سے از سر نو تعلقات کی بحالی کے لیے پاکستانی پارلیمان کے وضع کردہ رہنماء اصولوں کی روشنی میں دونوں ممالک کے سینیئر عہدیدار نیٹو سپلائی لائن اور دوطرفہ روابط کی بحالی پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

(فائل فوٹو)


پاکستان امریکہ سے قبائلی علاقے میں سلالہ کے مقام پر قائم چوکیوں پر نیٹو کے حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر معافی کا مطالبہ کر رہا ہے اور اسلام آباد کا موقف ہے کہ پارلیمان سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد میں بھی یہ ہی مطالبہ کیا گیا ہے اس لیے واشنگٹن اس کا احترام کرے۔

مقامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق دونوں ممالک کے عہدیدار سلالہ چوکی پر فضائی حملے میں ہونے والی ہلاکتوں پر امریکہ کی جانب سے ممکنہ معافی نامے کے مسودے کو حتمی شکل دے رہے ہیں جس کے بعد توقع کی جا رہی نیٹو سپلائی لائن بحال کر دی جائے گی۔

گذشتہ سال 26 نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے فضائی حملے کے بعد سے پاکستان نے احتجاجاً اپنی سر زمین کے راستے نیٹو افواج کے لیے رسد کی ترسیل بند کر دی تھی جو تاحال برقرار ہے۔