'بچوں کے بنیادی حقوق سے آگاہی نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے'

فائل فوٹو

اب بھی اسکول جانے کی عمر کے دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جب کہ بچوں سے مشقت لینے کے خلاف قانون موجود ہونے کے باوجود جگہ جگہ کم عمر بچے مختلف کام کرتے اور بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پاکستان میں حالیہ برسوں میں قانون سازی تو ہوئی ہے لیکن اس شعبے سے وابستہ افراد کے نزدیک صورتِ حال میں اب بھی کوئی اطمینان بخش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

اب بھی اسکول جانے کی عمر کے دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جب کہ بچوں سے مشقت لینے کے خلاف قانون موجود ہونے کے باوجود جگہ جگہ کم عمر بچے مختلف کام کرتے اور بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

حقوق اطفال خصوصاً جنسی تشدد کے خلاف سرگرم ایک موقر غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کے سینئر پروگرام آفیسر ممتاز گوہر کہتے ہیں کہ قانون سازی کا ہونا تو خوش آئند ہے لیکن نچلی سطح تک اس سے آگاہی نہ ہونے کے باعث ان قوانین سے وہ فائدہ نہیں ہو پا رہا جو ہونا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے تو اس معاملے سے متعلق منفی سماجی رویے اس بارے میں بات کرنے میں والدین کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں۔

"گراس روٹ لیول پر آگاہی بہت کم ہے۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ اگر کوئی بچہ تشدد کا شکار ہوتا ہے تو اس کے والدین کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس حوالے سے جو قوانین بھی ہیں اور ہم آگے جائیں تو تحفظ مل بھی سکتا ہے، لیکن یہ کوشش کرتے ہیں کہ شروع میں ہی اسے دبا دیں۔"

ممتاز گوہر کہتے ہیں کہ بہت سے واقعات میں معاملہ عدالتی کارروائی تک تو پہنچتا ہے لیکن اس کا فیصلہ آنے تک کافی وقت صرف ہوتا ہے اور اکثر لوگ بچوں سے زیادتی سے متعلق واقعات کو اس بنا پر بھی عدالت تک نہیں لے کر جاتے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم بچوں پر خاص طور سے جنسی تشدد کے واقعات میں متاثرہ فریق کو فری قانونی معاونت فراہم کرتی ہے اور مختلف ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو بچوں کے حقوق سے متعلق کام کر رہی ہیں۔

لہذا ان کے بقول والدین اور دیگر لوگوں کو چاہیے کہ اگر انھیں کہیں بچوں کا استحصال ہوتا دکھائی دے تو وہ اس پر خاموش نہ رہیں بلکہ آواز بلند کریں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور قانون سازی کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی مختلف اقدام کیے گئے ہیں جن میں بچوں کے لیے خصوصی کمیشن کا قیام بھی شامل ہے۔

دنیا بھر کی طرح پیر کو پاکستان میں بھی بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اس دن کی مناسبت سے اپنے الگ الگ پیغامات میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا۔

راہنماؤں نے والدین، سماجی حلقوں اور غیر سرکاری تنظیموں سے بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔