بلوچستان میں ایک علیحدگی پسند بلوچ کمانڈر قلاتی خان مری نے عسکری کارروائیاں ترک کرتے ہوئے حکومت کی عمل داری کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
قلاتی خان نے یہ اعلان مری قبیلے کے سربراہ اور صوبائی وزیر نواب چنگیز مری کے ہمراہ جمعرات کو کیا۔
نواب خیر بخش مری مرحوم کے بیٹے چنگیز مری نے اس موقع پر ریاست کے خلاف برسر پیکار اپنے بھائیوں سمیت مری قبیلے اور دیگر تمام بلوچ نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ "ہتھیار" کا راستہ ترک کر کے حکومت کو عمل داری تسلیم کریں۔
قلاتی خان مری نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ وہ چار دہائیوں تک ریاست کے خلاف لڑتے چلے آ رہے تھے لیکن چنگیز خان مری سے رابطے کے بعد ان کی سوچ میں تبدیلی آئی جس پر انھوں نے ہتھیار رکھنے کا فیصلہ کیا۔
"جب چینگیز خان مری ہمارے مری قبیلے کے نواب بنے تو اُن سے ہمارے رابطے ہو ئے تو ان کی مثبت سوچ، علاقے کی ترقی، تعلیم کی طرف توجہ ، اپنی قوم کی طرف توجہ، پاکستان کے ساتھ دوستی نے ہمیں مجبور کیا اس بات پر کہ ہم بھی ان کا ساتھ دیں ہم نے بھی پہاڑوں کا راستہ چھوڑ کے، اپنے بچوں کے لیے اس ملک کے لیے آج ہم نے ہتھیار رکھ دیے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ ان کی سربراہی میں پچاس کے قریب لوگ کام کر رہے تھے اور ریاستی عملداری کو قبول کرنے کے لیے وہ ان سے بھی رابطے میں ہیں۔
چنگیز خان مری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انھوں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہو کیونکہ جو راستہ انھوں نے اختیار کیا ہے اس سے نہ تو ملک کا فائدہ ہے اور نہ قوم کا۔
" یہ سمجھ گئے ہیں کچھ اور لوگ بھی سمجھیں گے اور انشاءاللہ کوشش یہ کریں گے کہ سب کو سمجھائیں اور سب کو لا کے اپنے ساتھ مل جل کے علاقے، قوم کے فائدے اور امن کے لئے ان کو یہ اپنا رول ادا کر سکیں"۔
بلوچستان میں حالیہ مہینوں کے دوران عسکریت پسندی میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی ہے جب کہ صوبائی حکومت ناراض بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کے میز پر لانے کی کوششیں بھی کرتی آئی ہے لیکن اس میں کوئی قابل ذکر کامیابی ہیں ہو سکی۔
قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود صوبہ بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے اور یہاں ایک عرصے سے جاری شورش پسندی سے یہاں تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں حالات دن بدن ابتری کا شکار ہی ہوتے رہے ہیں۔
متعدد کالعدم بلوچ عسکری تنظیموں کی طرف سے مختلف علاقوں میں پرتشدد کارروائیاں بھی دیکھنے میں آتی رہتی ہیں جن میں سکیورٹی فورسز اور سرکاری املاک، بجلی کی تنصیبات اور گیس کی پائپ لائنوں پر بم حملے بھی شامل ہیں۔
یہ لوگ صوبے کے وسائل میں زیادہ اختیارات اور زیادہ خودمختاری کے حصول کو اپنی کارروائیوں کا جواز قرار دیتے ہیں۔