اعلیٰ سرکاری عہدیدار ذوالقرنین حیدر کہتے ہیں کہ ’’عدم استحکام جس طرح دیگر جرائم کے اضافے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اسی طرح اس سے منشیات کے اسمگلروں کو بھی مدد ملتی ہے۔‘‘
اسلام آباد —
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) نے پاکستان سے متعلق پہلی جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ملک میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً 70 لاکھ ہے جن میں نصف سے زیادہ افراد ہیروئن، چرس اور دیگر منشیات کے عادی ہیں۔
منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والے افراد کی تعداد صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ ہے مگر ایسے لوگوں میں سالانہ اضافے کے اعتبار سے صوبہ خیبر پختونخواہ سر فہرست ہے جہاں یہ شرح 11 فیصد تک ہے۔
یو این او ڈی سی کے مشیر ڈاکٹر ندیم رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والے افراد میں 20 فیصد خواتین ہیں جو کہ زیادہ تر نشہ آور ادویات استعمال کرتی ہیں۔
’’ہیروئن، چرس کے استعمال کی روک تھام کے لیے آپ کام کریں مگر ہمیں نشہ آور ادویات کے غلط استعمال کو بھی روکنا ہوگا۔ خیبرپختونخواہ کی خواتین میں اس کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بیٹا، خاوند باہر گئے پتہ نہیں آئے گا یا نہیں۔ خود کش حملے ہو رہے ہیں پچھلے پانچ، دس سال میں بہت ذہنی تناؤ پڑھ گیا ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی ہے۔‘‘
بعض ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ پاکستان میں شدت پسندی و بدامنی جاری رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہو۔
انسداد منشیات کی وفاقی وزارت کے جوائنٹ سیکرٹری ذوالقرنین حیدر نے بھی اس امکان کو مسترد نہیں کیا۔
’’عدم استحکام جس طرح دیگر جرائم کے اضافے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اسی طرح منشیات کے اسمگلروں کو بھی مدد ملتی ہے۔ میرے پاس شواہد تو نہیں مگر اسے رد نہیں کیا جا سکتا اور ہم اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کہیں عسکریت پسندی کا تعلق اس سے تو نہیں۔‘‘
اقوام متحدہ اور پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ منشیات کا استعمال کرنے والے افراد کی اتنی بڑی تعداد کی ایک وجہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے جہاں ایک طرف تو افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک افغانستان اور دوسری طرف چین اور بھارت ہیں جہاں افیون کو ہیروئن بنانے کے لیے استعمال ہونے والا کیمیکل سب سے زیادہ بنتا ہے۔ ان دونوں کی ایک بڑی مقدار پاکستان کے راستے اسمگل ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15 سے 64 سال کی عمر کے افراد نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں جبکہ اس کا زیادہ استعمال 25 سے 40 سال کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔
انسداد منشیات کی وفاقی وزارت کے ڈائریکٹر جنرل محمد شاہد کہتے ہیں کہ ’’70 فیصد افراد دباؤ یا لطف کے لیے نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے خاندان کو متحد ہونا ہوگا۔ ہمارا نعرہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ کم از کم رات کا کھانا ضرور کھائیں۔ اس طرح کچھ نظم و ضبط آجائے گا۔‘‘
سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کے صرف 3 ادارے ہیں۔
محمد شاہد کا کہنا تھا کہ سستا اور پر اثر طریقہ ہونے کی وجہ سے لوگ اب زیادہ تر انجکشن کے ذریعے نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ ’’اب لوگ پانی کے اندر ہیروئن ڈال کر انجکشن کے ذریعے لیتے ہیں اور اس سرنج کو شیئر بھی کرتے ہیں۔ جس سے ایچ آئی وی ایڈز کے ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا۔ یہ بہت تشویش ناک ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 15 ممالک میں شامل ہے جہاں ایچ آئی وی کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر ملک میں ایچ آئی وی/ایڈز میں اضافے کی شرح 37.8 فیصد جبکہ فیصل آباد، ڈیرہ غازی خان اور گجرات میں تقریباً 50 فیصد ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے راستے اسمگل ہونے والی منشیات کو قبضے میں لینے سے متعلق ملک کے متعلقہ اداروں کی کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔
تاہم ماہرین اور سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جب تک یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں افغانستان میں بننے والی منشیات کی طلب کم نہیں کی جاتی یہ کارروائیاں زیادہ سود مند نہیں ہو سکتیں۔
منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والے افراد کی تعداد صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ ہے مگر ایسے لوگوں میں سالانہ اضافے کے اعتبار سے صوبہ خیبر پختونخواہ سر فہرست ہے جہاں یہ شرح 11 فیصد تک ہے۔
یو این او ڈی سی کے مشیر ڈاکٹر ندیم رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والے افراد میں 20 فیصد خواتین ہیں جو کہ زیادہ تر نشہ آور ادویات استعمال کرتی ہیں۔
’’ہیروئن، چرس کے استعمال کی روک تھام کے لیے آپ کام کریں مگر ہمیں نشہ آور ادویات کے غلط استعمال کو بھی روکنا ہوگا۔ خیبرپختونخواہ کی خواتین میں اس کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بیٹا، خاوند باہر گئے پتہ نہیں آئے گا یا نہیں۔ خود کش حملے ہو رہے ہیں پچھلے پانچ، دس سال میں بہت ذہنی تناؤ پڑھ گیا ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی ہے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
بعض ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ پاکستان میں شدت پسندی و بدامنی جاری رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہو۔
انسداد منشیات کی وفاقی وزارت کے جوائنٹ سیکرٹری ذوالقرنین حیدر نے بھی اس امکان کو مسترد نہیں کیا۔
’’عدم استحکام جس طرح دیگر جرائم کے اضافے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اسی طرح منشیات کے اسمگلروں کو بھی مدد ملتی ہے۔ میرے پاس شواہد تو نہیں مگر اسے رد نہیں کیا جا سکتا اور ہم اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کہیں عسکریت پسندی کا تعلق اس سے تو نہیں۔‘‘
اقوام متحدہ اور پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ منشیات کا استعمال کرنے والے افراد کی اتنی بڑی تعداد کی ایک وجہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے جہاں ایک طرف تو افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک افغانستان اور دوسری طرف چین اور بھارت ہیں جہاں افیون کو ہیروئن بنانے کے لیے استعمال ہونے والا کیمیکل سب سے زیادہ بنتا ہے۔ ان دونوں کی ایک بڑی مقدار پاکستان کے راستے اسمگل ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15 سے 64 سال کی عمر کے افراد نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں جبکہ اس کا زیادہ استعمال 25 سے 40 سال کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔
انسداد منشیات کی وفاقی وزارت کے ڈائریکٹر جنرل محمد شاہد کہتے ہیں کہ ’’70 فیصد افراد دباؤ یا لطف کے لیے نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے خاندان کو متحد ہونا ہوگا۔ ہمارا نعرہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ کم از کم رات کا کھانا ضرور کھائیں۔ اس طرح کچھ نظم و ضبط آجائے گا۔‘‘
سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کے صرف 3 ادارے ہیں۔
محمد شاہد کا کہنا تھا کہ سستا اور پر اثر طریقہ ہونے کی وجہ سے لوگ اب زیادہ تر انجکشن کے ذریعے نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ ’’اب لوگ پانی کے اندر ہیروئن ڈال کر انجکشن کے ذریعے لیتے ہیں اور اس سرنج کو شیئر بھی کرتے ہیں۔ جس سے ایچ آئی وی ایڈز کے ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا۔ یہ بہت تشویش ناک ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 15 ممالک میں شامل ہے جہاں ایچ آئی وی کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر ملک میں ایچ آئی وی/ایڈز میں اضافے کی شرح 37.8 فیصد جبکہ فیصل آباد، ڈیرہ غازی خان اور گجرات میں تقریباً 50 فیصد ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے راستے اسمگل ہونے والی منشیات کو قبضے میں لینے سے متعلق ملک کے متعلقہ اداروں کی کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔
تاہم ماہرین اور سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جب تک یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں افغانستان میں بننے والی منشیات کی طلب کم نہیں کی جاتی یہ کارروائیاں زیادہ سود مند نہیں ہو سکتیں۔