مذہبی و نسلی اقلیتوں کی بیرون پاکستان پناہ کی درخواستوں میں اضافہ

(فائل فوٹو)

اقوام متحدہ کی تحقیقاتی جائزہ رپورٹ کے مطابق صرف یورپ کے ممالک میں پناہ لینے کی درخواستوں میں 25 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مذہبی و نسلی اقلیتوں نے ایذا رسانی سے بچنے کے لیے آسٹریلیا میں پناہ کو ترجیح دی۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) نے انسانی تجارت اور تارکین وطن کی اسمگلنگ سے متعلق رپورٹ میں کہا ہے کہ غربت اور ایذا رسانی سے بچنے کے لیے حالیہ برسوں میں پاکستانیوں نے یورپی یونین اور آسٹریلیا کا رخ کیا ہے۔

جمعرات کو جاری ہونے والی تحقیقاتی جائزہ رپورٹ کے مطابق صرف یورپ کے ممالک میں پناہ لینے کی درخواستوں میں 25 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مذہبی و نسلی اقلیتوں نے ایذا رسانی سے بچنے کے لیے آسٹریلیا میں پناہ کو ترجیح دی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نا صرف بیرون وطن بلکہ ملک کے اندر لوگوں کی نقل مکانی اور اسمگلنگ ایک انتہائی گمبھیر مسئلہ بن چکی ہے اور اس کے شکار افراد کو جنسی اور مالی استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں اس مسئلے کی بڑی وجوہات میں غربت اور بیروزگاری کے علاوہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے باعث سلامتی کی صورتحال بھی ہے۔

یو این او ڈی سی کے پاکستان میں نمائندے سیزر گیڈیز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان افراد میں بڑی تعداد شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری سے ہے۔

’’پاکستان کے مختلف حصوں میں یا تو غربت ہے یا وہاں کچھ داخلی مسائل ہیں جو کہ لوگوں کو باہر نکلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یا تو یہ لوگ ترکی یا خلیجی ریاستوں سے یورپ جاتے ہیں یا انڈونیشیا یا ملائیشیا سے آسٹریلیا۔ ہم ان لوگوں کی نقل و حرکت روک تو نہیں سکتے مگر ہم انہیں ان رستوں سے روکنے کی کوشش کر سکتے ہیں جو کہ غیر قانونی ہیں اور جن میں جان کو خطرہ ہو۔‘‘

2012ء میں غیر قانونی طور پر آسٹریلیا جانے کے خواہش مندوں کی ایک کشتی سمندر میں ڈوب گئی تھی جن میں پاکستانی حکام کے مطابق بڑی تعداد شیعہ اکثریت کے قبائلی علاقے کرم اور کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے افراد سوار تھے۔ اس حادثے میں بیشتر سوار ہلاک یا لاپتہ ہوگئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مذہبی و نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے کئی پاکستانیوں کی آسٹریلیا میں تحفظ کے لیے دائر کردہ درخواتیں تسلیم کی گئیں جو کہ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ان کے وطن چھوڑنے کی وجوہات ’’جائز اور مجبوری‘‘ تھیں۔

حالیہ برسوں میں شدت پسندوں کی جانب سے شیعہ مسلک اور بالخصوص ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کو مہلک حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رواں ہفتے ہی صوبہ بلوچستان میں شیعہ زائرین کی بس پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہوئے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سربراہ سعود مرزا کہتے ہیں کہ انسانی اسملنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائیاں کی جارہی ہیں اور اب تک متعدد افسران کو ملازمت سے معطل بھی کیا جا چکا ہے۔

’’جب ملک میں بیروزگاری ہوگی، معیشت مضبوط نا ہوگی تو لوگ ایسی کوششیں کریں گے اور اس صورتحال میں اسمگلرز کو کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ 6 ماہ قبل ہم نے انتہائی مطلوب ہیومن ٹریفیکرز کے خلاف ایک مہم شروع کی جس میں 35 کو گرفتار کیا گیا جبکہ گزشتہ چار سالوں میں صرف 65 گرفتار ہوئے تو اس سے ایک فرق پڑا ہے۔‘‘

رپورٹ کے مطابق پاکستان سے نا صرف انسانی اسمگلنگ ہوتی ہے بلکہ یہ ایک گزر گاہ اور کئی غربت اور مسلح تصادم کے شکار ممالک کے شہریوں کی منزل بھی ہے۔ جن میں افغانستان، برما اور بنگلہ دیشں شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ سے متعلق انتظامی اقدامات اور پالیسیوں کے علاوہ عوام میں اس کے سنگین نتائج کے بارے میں آگاہی بھی اس کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔