پاکستان میں رواں ہفتے نئے اسلامی سال کا آغاز ہو رہا ہے اور اس کے پہلے مہینے محرم کے دوران کسی بھی طرح کے ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے جہاں سخت حفاظتی انتظامات کا بتایا گیا ہے وہیں مختلف مکتبہ فکر اور مسالک سے تعلق رکھنے والے علما کی ایک بڑی نمائندہ تنظیم نے ایک متفقہ ضابطہ اخلاق بھی جاری کیا ہے۔
محرم کے پہلے دس روز شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے پیغمبر اسلام کے نواسے حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی کربلا میں شہادت کی یاد میں مجالس اور عزاداری کا انتظام کیا جاتا ہے۔
ان ہی دنوں میں پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جس کی کہ اس ملک میں ایک تاریخ ہے جس میں متعدد ہلاکت خیز واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔
پاکستان علما کونسل نے محرم میں امن و امان اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔
کونسل کے سربراہ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ دس نکاتی ضابطہ اخلاق تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علما کے ہونے والے اجلاس کے بعد طے کیا گیا۔
"اس کا بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ پاکستان کے اندر کوئی بھی ایسی حرکت نہ کرے کہ جس سے کسی کے مسلک کی کسی کے اکابر کی توہین ہو اور تصادم پیدا ہو اور محرم کے قریب اس لیے بھی یہ ہو جاتا ہے کہ ایک طرف مجالس، جلسے اور جلوسوں کا ماحول ہوتا ہے اور دوسری طرف کچھ ذاکر، خطیب ایسے جملے کہہ دیتے ہیں جس سے دوسرے مکاتب فکر کے اکابر کی گستاخی ہوتی ہے اور اس سے تصادم ہوتا ہے تو اس لیے یہ ضرورت پیش آئی کہ از سر نو اس ضابطے کو عام کیا جائے لوگوں تک پہنچایا جائے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اسی ہفتے یہ ضابطہ اخلاق اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی پیش کیا جائے گا جس میں اس پر قانون سازی سے متعلق بات چیت ہوگی۔
گزشتہ سال دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے ہلاکت خیز حملے کے بعد حکومت کی طرف سے انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل کے تحت بھی نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور تحریری مواد رکھنے والوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔
اس کے تحت اب تک سیکڑوں افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات بھی چلائے جا رہے ہیں جن میں بعض کو سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔
اس محرم کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بھی ڈیڑھ درجن سے زائد سنی اور شیعہ علما کو تقاریر کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔