پاکستانی فوج کے ترجمان نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس کے دھڑے جماعت الاحرار کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اس دعوے کی مزید وضاحت نہیں کی کہ احسان اللہ احسان نے کب خود کو پاکستانی سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اندرون ملک حکومت کی عمل داری بحال ہونے کے سبب سرحد پار افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو بھی اس بات کا ادراک ہو چلا ہے کہ اُن کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
’’جو ریاست کی رٹ ہے وہ ملک میں بحال ہو رہی ہے ان کامیابیوں کی وجہ سے جو سرحد کے پار (دہشت گردوں کی قیادت) بیٹھی ہے مختلف تنظیموں کی ان کو بھی احساس ہے کہ پاکستان کے حالات وہ نہیں ہیں جو پہلے تھے۔۔ ان کے لیے آپریٹ کرنا مشکل ہو رہا ہے تو اس سلسلے میں آپ سے یہی شئیر کرنا چاہوں گا کہ جو کالعدم تنظیم جماعت الحرار اور ٹی ٹی پی کے ترجمان تھے احسان اللہ احسان انھوں نے اپنے آپ کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا ہے اور صرف وہی نہیں ہیں۔۔ آنے والے وقت میں آپ دیکھیں گے کہ اس قسم کی اور بھی اطلاعات آپ سے شئیر کریں گے۔‘‘
واضح رہے کہ رواں سال فروری میں پاکستان میں ہونے والے مختلف بڑے دہشت گرد حملوں کے علاوہ دیگر ایسے حملوں کی ذمہ داری میں جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔
احسان اللہ احسان کی طرف سے خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنے کے بارے میں جماعت الاحرار کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
نورین لغاری کبھی شام گئی ہی نہیں
اُدھر رواں سال فروری میں صوبہ سندھ سے لاپتا ہونے والی طالبہ نورین لغاری کے بارے میں فوج کے ترجمان نے کہا کہ وہ کبھی شام نہیں گئیں۔
نیوز کانفرنس کے دوران طالبہ نورین لغاری کا ایک اعترافی ویڈیو پیغام بھی دیکھایا گیا، جس میں اُنھوں نے شدت پسندوں سے رابطے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں ایسٹر کے موقع پر ایک چرچ پر حملے میں بطور خودکش بمبار استعمال کیا جانا تھا۔
واضح رہے کہ نورین نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائیٹ پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ وہ ’داعش‘ میں شامل ہو کر شام جانے والی ہیں۔
لیکن اُنھیں گزشتہ اختتام ہفتہ لاہور سے گرفتار کیا گیا۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ داعش کا ہدف نوجوانوں کو راغب کرنا ہے۔
’’جو تحریک طالبان پاکستان تھی، جس کا ہم نے مقابلہ کیا وہ ایک فزیکل خطرہ تھا۔۔۔ دیکھیں جو داعش ہے اس کا ٹارگٹ نوجوان ہیں اور اس کا جو میڈیم ہے وہ یہ ٹیکنالوجی ہے تو ہمارے ہر گھر کے فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں یونیورسٹیوں کے اندر اس ٹیکنالوجی کو مثبت استعمال کی طرف لے کر جائیں نا کہ منفی استعمال کی طرف۔۔‘‘
آپریشن ردالفساد
دریں اثنا ملک میں جاری آپریشن ’ردالفساد‘ کی تفصیلات بتاتے ہوئے فوج کے ترجمان نے کہا کہ 22 فروری سے اس آپریشن کے آغاز کے بعد سے ملک بھر میں 15 بڑے آپریشن کیے گئے ہیں۔
’’اس کے علاوہ 4535 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے ہیں ان آپریشنز کے دوران ملک بھر سے 4510 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا 1859غیر اندراج شدہ افغانوں کو بھی گرفتار کیا گیا اس دوران ہتھیار ڈالنے والے فراری ہیں جیسے بلوچستان میں پورے ملک میں 558 افراد نے خود کو قانون کے حوالے کیا۔۔۔ آپریشنز کے دوران جہاں فائرنگ کا تبادلہ ہوا ابھی تک108 دہشت گرد رد الفساد کے تحت مارے جا چکے ہیں۔‘‘
فروری میں ملک کے مختلف علاقوں میں پہ در پہ ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد آپریشن ’ردالفساد‘ کا اعلان کیا گیا اور پاکستانی حکام کے مطابق اب تک پاکستان کے طول و عرض میں کی جانے والی کارروائیاں میں شدت پسندوں کے خلاف نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔