زخمی افغان فوجی کے انخلا کے لیے پاک فوج کی سرحد پار کارروائی

فائل فوٹو

زخمی افغان فوجی کی پاکستانی فوج کے ذریعے منتقلی دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں بہتر ہوتے تعلقات کی غمازی کرتی ہے۔

پاکستان کی فوج نے قبائلی علاقے باجوڑ سے ملحقہ افغان علاقے میں داخل ہو کر وہاں سے ایک زخمی افغان فوجی کو اپنے ہاں منتقل کیا ہے۔

منگل کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری مختصر بیان کے مطابق پاکستانی فوجی افغان حکام کی درخواست پر سرحد پار 600 میٹر کے علاقے میں داخل ہوئے اور وہاں سے ایک زخمی فوج کو منتقل کیا۔

حکام کے بقول یہ افغان فوجی دہشت گردوں کے ساتھ ہونے والی لڑائی میں زخمی ہو گیا تھا جو اب باجوڑ ایجنسی کے مرکزی قصبے خار کے اسپتال میں زیر علاج ہے۔

باجوڑ سے ملحقہ افغان صوبے کنڑ میں حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا ہے اور اس دوران حکام نے درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

زخمی افغان فوجی کی پاکستانی فوج کے ذریعے منتقلی دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں بہتر ہوتے تعلقات کی غمازی کرتی ہے۔

گزشتہ سال اشرف غنی کے منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بتدریج بہتری آئی ہے جو کہ گزشتہ برسوں میں بداعتمادی اور دشنام ترازیوں کی وجہ سے کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے وہ اپنا بھرپور تعاون جاری رکھے گا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے ایک روز قبل کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات "درست سمت" میں آگے بڑھ رہے ہیں اور دونوں ہمسایہ ممالک کی قیادت اس مثبت پیش رفت کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں کئی اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے بھی ہو چکے ہیں اور پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف بھی اسی اثناء میں دو بار کابل کا دورہ کر چکے ہیں۔

پہلی مرتبہ چھ افغان شہری پاکستانی فوج کی کاکول اکیڈمی میں تربیت کی غرض سے زیر تربیت ہیں۔

دریں اثناء مشرقی افغانستان میں رواں ہفتے شدت پسند گروپ داعش سے وفاداری کا اعلان کرنے والے طالبان کے منحرف دھڑوں اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان بھی شدید لڑائی دیکھنے میں آئی ہے۔

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے داعش کے رہنما کو ایک خط لکھا ہے جس میں زور دیا گیا کہ وہ افغانستان میں لوگوں کو اپنے گروہ میں شامل نہ کریں کیونکہ ان کے بقول ملک میں سخت گیر اسلامی ریاست کے قیام کے لیے ایک ہی پرچم اور ایک ہی قیادت کی جگہہ ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی "روئٹرز" کے مطابق طالبان نے داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی سے کہا ہے کہ وہ ان کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

داعش نے گزشتہ برس عراق اور شام کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں خلافت کا اعلان کیا تھا جب کہ اس نے اپنا دائرہ اثر مزید علاقوں تک بڑھانے کے لیے بھی کارروائی کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

امریکہ داعش کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر اس کے خلاف عراق اور شام میں فضائی کارروائیاں کر رہا ہے۔