پاکستان کے علاقے خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ کے قبائل نے ریاست کو "مطلوب افراد" حکام کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
سپاہ اور بعض دیگر قبائل نے پولیٹیکل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں اس بارے میں ایک معاہدہ بھی تیار کیا ہے جس پر آئندہ ہفتے باقاعدہ طور پر دستخط کیے جائیں گے۔
اس قبائلی علاقے میں طالبان کے علاوہ دیگر شدت پسند اور جرائم پیشہ عناصر سرگرم رہے ہیں لیکن گزشتہ سال فوج نے یہاں آپریشن کر کے سیکڑوں شدت پسندوں کو ہلاک اور متعد کو گرفتار کر لیا تھا۔
قبائلی رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ دہشت گردوں کو اپنا علاقہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور انسداد دہشت گردی میں حکومت کا ساتھ دیں گے۔
مزید برآں یہ عزم بھی کیا گیا کہ مطلوب قبائلیوں کو 25 دسمبر تک حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔
اس ضمن میں 80 ارکان پر مشتمل امن لشکر بھی بنایا گیا ہے۔ اگر کوئی قبائلی اغوا یا قتل میں ملوث ہوا تو قبائلی روایت کے مطابق اس پر دس سے تیس لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ اس کا گھر مسمار کر دیا جائے گا۔
پاکستان کے قبائلی علاقے وفاق کے زیر انتظام ہیں اور ان کا انتظامی سربراہ صوبہ خیبر پختونخواہ کا گورنر ہوا کرتا ہے۔
حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ وہ قبائلیوں کا معیار زندگی بہتر بنا کر انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن قبائلیوں کو یہ شکایت رہی ہے کہ ان کے ہاں آئین پاکستان کی بجائے نوآبادیاتی دور کا قانون رائج ہے جس سے وہ ملک کے دیگر شہریوں جیسے حقوق حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
واضح رہے کہ قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں گزشتہ سال سے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن کیے گئے۔ پہلے خیبر ون اور پھر خیبر ٹو کے نام سے کارروائیاں کی گئیں۔
اب بھی وادی تیراہ میں چھپے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ خیبر ایجنسی کے علاوہ شمالی وزیرستان میں بھی بیشتر حصے سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے۔