ایک مشاورتی نشست میں دس سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ملک کے دوسرے شہریوں کی نسبت قبائلی عوام اب بھی کئی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے صدر مملکت ممنون حسین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمہوریت کے فروغ و استحکام اور عوامی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے لیے ملک کے دوسرے حصوں کی طرح قبائلی علاقوں میں بھی بلدیاتی نظام کے جلد نفاذ کا اعلان کریں۔
اسلام آباد میں منگل کو ہونے والی ایک مشاورتی نشست میں دس سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ملک کے دوسرے شہریوں کی نسبت قبائلی عوام اب بھی کئی بنیادی حقوق سے محروم ہیں جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر پسماندگی کا باعث ہے۔
دس سیاسی جماعتوں کے نمائندے قبائلی علاقوں میں اصلاحات سے متعلق قائم کردہ ایک کمیٹی کے تحت جمع ہوئے تھے۔
سابق وفاقی وزیر مملکت اور قومی وطن پارٹی کی جنرل سیکرٹری انیسہ زیب طاہرخیلی نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے انہیں ان سے متعلق فیصلوں میں شریک کرنا نا گزیر ہے۔
’’1997ء میں جب قبائلی علاقوں میں حق رائے دہی دیا گیا تو اس وقت بھی کہا گیا کہ یہ بہت بڑا رسک ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس سے لوگوں کی شمولیت زیادہ ہوئی اور اگر آپ نے وہاں مذاکرات کرنے ہیں تو اس سے پہلے ترقی ضروری ہے اور وہ بلدیاتی نظام سے زیادہ موثر انداز سے ممکن ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر قبائلی علاقوں میں انتخابات مرحلہ وار بھی کروائے جا سکتے ہیں۔
نواز شریف حکومت قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹنے کا اعیادہ کر چکی ہے۔
اجلاس میں سیاسی رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ قبائلی علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بناتے ہوئے ان کی پیشہ ورانہ بنیادی پر تربیت کی جائے۔
ان کی طرف سے اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ قبائلی علاقوں میں عدلیہ اور مققنہ کے ادارے علیحدہ علیحدہ ہونے چاہئے اور جرگے کے نظام کو مضبوط اور آزاد بنایا جائے۔ سیاسی رہنماؤں نے قبائلی علاقوں سے متعلق خصوصی قانون یعنی فرنٹیر کرائم ریگولیشن کو ’’کالا قانون‘‘ قرار دیا تاہم بیشتر نے اس کے فی الحال یکسر خاتمے کی مخالفت کی۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے جنرل سیکرٹری رحمت سلام خٹک کا کہنا تھا کہ جرگے کے نظام کو پشتون روایت سے نہیں علیحدہ کیا جا سکتا۔
’’بڑے سے بڑے مسئلے کا فیصلہ آخر میں چارپائی پر ہی بیٹھ کر حل کرتے ہیں۔ تو باشعور لوگ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ جا کر وقت اور پیسہ کیوں ضائع کریں۔ آپ نے تبدیلی لانی ہے تو آہستہ آہستہ لائیں ورنہ افرتفری مچ جائے گی۔‘‘
سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ آئین کی اس شق 247 کو بھی ختم کیا جائے جس کے تحت قبائلی عوام اپنے لیے قانون سازی سے محروم ہیں۔
سابقہ دور حکومت میں قبائلی علاقوں سے متعلق قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو ان علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی جس کے تحت ان کے نمائندوں نے وہاں سے انتخابات بھی لڑے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے اب بھی بڑے پیمانے پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
اسلام آباد میں منگل کو ہونے والی ایک مشاورتی نشست میں دس سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ملک کے دوسرے شہریوں کی نسبت قبائلی عوام اب بھی کئی بنیادی حقوق سے محروم ہیں جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر پسماندگی کا باعث ہے۔
دس سیاسی جماعتوں کے نمائندے قبائلی علاقوں میں اصلاحات سے متعلق قائم کردہ ایک کمیٹی کے تحت جمع ہوئے تھے۔
سابق وفاقی وزیر مملکت اور قومی وطن پارٹی کی جنرل سیکرٹری انیسہ زیب طاہرخیلی نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے انہیں ان سے متعلق فیصلوں میں شریک کرنا نا گزیر ہے۔
’’1997ء میں جب قبائلی علاقوں میں حق رائے دہی دیا گیا تو اس وقت بھی کہا گیا کہ یہ بہت بڑا رسک ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس سے لوگوں کی شمولیت زیادہ ہوئی اور اگر آپ نے وہاں مذاکرات کرنے ہیں تو اس سے پہلے ترقی ضروری ہے اور وہ بلدیاتی نظام سے زیادہ موثر انداز سے ممکن ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر قبائلی علاقوں میں انتخابات مرحلہ وار بھی کروائے جا سکتے ہیں۔
نواز شریف حکومت قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹنے کا اعیادہ کر چکی ہے۔
اجلاس میں سیاسی رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ قبائلی علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بناتے ہوئے ان کی پیشہ ورانہ بنیادی پر تربیت کی جائے۔
ان کی طرف سے اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ قبائلی علاقوں میں عدلیہ اور مققنہ کے ادارے علیحدہ علیحدہ ہونے چاہئے اور جرگے کے نظام کو مضبوط اور آزاد بنایا جائے۔ سیاسی رہنماؤں نے قبائلی علاقوں سے متعلق خصوصی قانون یعنی فرنٹیر کرائم ریگولیشن کو ’’کالا قانون‘‘ قرار دیا تاہم بیشتر نے اس کے فی الحال یکسر خاتمے کی مخالفت کی۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے جنرل سیکرٹری رحمت سلام خٹک کا کہنا تھا کہ جرگے کے نظام کو پشتون روایت سے نہیں علیحدہ کیا جا سکتا۔
’’بڑے سے بڑے مسئلے کا فیصلہ آخر میں چارپائی پر ہی بیٹھ کر حل کرتے ہیں۔ تو باشعور لوگ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ جا کر وقت اور پیسہ کیوں ضائع کریں۔ آپ نے تبدیلی لانی ہے تو آہستہ آہستہ لائیں ورنہ افرتفری مچ جائے گی۔‘‘
سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ آئین کی اس شق 247 کو بھی ختم کیا جائے جس کے تحت قبائلی عوام اپنے لیے قانون سازی سے محروم ہیں۔
سابقہ دور حکومت میں قبائلی علاقوں سے متعلق قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو ان علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی جس کے تحت ان کے نمائندوں نے وہاں سے انتخابات بھی لڑے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے اب بھی بڑے پیمانے پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔