پاکستان میں چھٹی مردم و خانہ شماری کا پہلا مرحلہ جاری ہے۔
ملک میں 19 سال بعد ہونے والی اس مردم شماری میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کا شمار بھی کیا جانا ہے لیکن خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مرد شماری کے فارم میں اُن کی جنس سے متعلق الگ خانہ نہیں بنایا گیا ہے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے ایک سرگرم کارکن قمر نسیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالت عظمٰی کے حکم پر عملدرآمد ضروری ہے۔
’’ہمیں یہ یقین دلایا گیا کہ جو فارم بنے گا اس کے اندر خواجہ سراﺅں کا خانہ شامل کیا جائے گا لیکن ہمیں مایوسی ہوئی کہ وہی پرانے فارم استعمال کیے گئے اور نیا کوئی فارم نہیں چھاپا گیا لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ ہدایت کی گئی ہے کہ جو لوگ فارم پر کر رہے ہیں وہ کالم کے اندر تین لکھیں اگر کوئی خود کو خواجہ سرا سمجھتا ہے یا ڈکلئیر کرتا ہے ۔۔۔۔ ہمیں لگتا ہے کہ بہت سارے خواجہ سرا ایسے ہیں جن کے پاس آج بھی پاکستان کے اندر اپنی من پسند کی جو جنس ہے اس کی شناخت موجود نہیں ہے۔‘‘
اُدھر چیف کمشنر شماریات آصف باجوہ نے جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق خواجہ سراؤں کے اندارج کے لیے عملے کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
’’ابھی جو جنس کے خانے میں کوڈ ہیں اس میں کوڈ 1 مرد کے لیے۔ 2 عورت کے لیے اور 3 تھا مخنث کے لیے۔۔۔ (عدلیہ کے) حکم کے مطابق تین مزید کوڈ ڈالیں جا رہے ہیں جو کہ کوڈ 4 معذور مرد کے لیے، 5 معذور عورت کے لیے اور 6 معذور مخنث کے لیے۔۔۔۔ تو ہم نے ہدایات کل ہی تیار کر کے اپنے فیلڈ عملے کو بھیج دی ہیں سول کو بھی بھیج دی ہیں اور فوج والوں کو بھی بھیج دی ہیں اور پریس میں اس کی تشہیر بھی کی گئی۔‘‘
خواجہ سراؤں کے حقوق کے ایک اور سرگرم کارکن ندیم کشش کہتے ہیں کہ مردم و خانہ شماری کی ٹیموں میں اگر اُن کے نمائندے بھی شامل کر لیے جائیں تو اُن کے بقول یہ کام بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتا ہے۔
’’جس طرح دوسرے محکموں کے لوگ جا رہے ہیں مردم شماری کے لیے اگر ہر علاقے سے ایک خواجہ سرا کو بھی ساتھ رکھ لیا جاتا تو وہ زیادہ آسانی سے بتا سکتا کہ یہاں کتنے خواجہ سرا ہیں اور اس سے ہمارے دل کو تسلی بھی ہو جاتی۔‘‘
دریں اثنا بعض شکایات کے بعد چیف کمشنر شماریات آصف باجوہ نے جمعہ کو واضح کیا کہ کوائف جمع کرنے کے لیے عملے کو پینسل کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی، آئین کے مطابق ہر دس سال بعد یہ عمل ضروری ہے لیکن مختلف وجوہات بشمول ملک میں سلامتی کی صورت حال کے تناظر میں یہ عمل مسلسل تاخیر کا شکار ہوتا رہا اور اب 15 مارچ کو 19 سال کے بعد مردم شماری کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
اس دوران سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور اس عمل کے لیے دو لاکھ فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔