برداشت کے فروغ کے لیے مشترکہ کوششیں ضروری

فائل فوٹو

عمیر ظفر اللہ کے نزدیک متبادل بیانیے کے فروغ کے لیے صرف حکومت یا نجی شعبہ اپنے طور پر اکیلے کچھ نہیں کر سکتا اور اس میں معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

عدم برداشت منفی سماجی اور انفرادی رویوں کو جنم دیتی ہے جو آگے چل کر اضطراب اور مختلف اقسام کی احساس محرومی میں تبدیل ہو کر معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔

بدھ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں برداشت کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد لوگوں میں ایک دوسرے کے عقائد، تہذیب و ثقافت کو سمجھتے ہوئے معاشرے سے عدم برداشت کے خاتمے کی کوششوں کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان میں نوجوانوں میں امن و ہم آہنگی کے فروغ کے لیے سرگرم کارکن عمیر ظفراللہ کہتے ہیں کہ برداشت کا حامل طبقہ ہر معاشرے میں خاصی تعداد میں موجود تو ہوتا ہے لیکن منظر عام پر صرف ایسے عناصر اور بیانیے ہی جگہ بناتے ہیں جن میں نفرت انگیزی یا عدم برداشت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔

"جو بڑا طبقہ ہے وہ پرامن ہے لیکن ایسے عناصر کو زیادہ توجہ دی جاتی ہے جو عدم برداشت اور نفرت کی بات کرتے ہیں جو بڑا طبقہ ہے جو پرامن ہے اس کو اس طرح جگہ نہیں ملتی۔ آپ مغرب کی بات کر لیں تو وہاں پر بھی اسلاموفوبیا کو ہمارا میڈیا یہاں پر جگہ دیتا ہے لیکن جو بڑی تعداد لوگوں کی ساتھ رہنا چاہتی ہے ان کا نقطہ نظر اس طرح سے یہاں نہیں دکھایا جاتا۔"

پاکستان کو ایک عرصے سے دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کا بھی سامنا رہا ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے گزشتہ سال کے اوائل میں قومی لائحہ عمل ترتیب دیا تھا۔

اس لائحہ عمل کے تحت نفرت انگیز تقاریر کے علاوہ شر انگیزی پر مبنی مواد کی نشر و اشاعت میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئیں جب کہ انتہا پسندی کے خلاف متبادل بیانیے کو فروغ دینے کا بھی تذکرہ کیا جاتا رہا۔

لیکن عمیر ظفر اللہ کے نزدیک متبادل بیانیے کے فروغ کے لیے صرف حکومت یا نجی شعبہ اپنے طور پر اکیلے کچھ نہیں کر سکتا اور اس میں معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جس کے بعد ہی برداشت کے فروغ کے اقدام کو تقویت مل سکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوان افراد پر مشتمل ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو ان کے خیالات کا اظہار کے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں جس سے ان کے بقول برداشت کے رویے کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔