مشترکہ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ جلد قائم کیا جائے گا: وزیر داخلہ

چودھری نثار علی خان (فائل فوٹو)

رواں ہفتے ہی وزارت داخلہ کی طرف سے قومی اسمبلی کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 285 مدرسے ایسے ہیں جنہیں بیرون ممالک سے مالی اعانت حاصل ہو رہی ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ مختلف سول اور فوجی انٹیلی جنس اداروں کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے جلد ایک مشترکہ ’انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ‘ قائم کیا جائے گا۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں گزشتہ دو سال کے دوران اپنی وزارت کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خفیہ معلومات کے ایک مشترکہ مرکز کے قیام کے لیے کام شروع کیا جا چکا ہے۔

’’جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ ہمارا ایک خواب تھا۔ اس پر کام شروع ہو چکا ہے، بجٹ آ چکا ہے، اور آئندہ دو تین مہینوں میں جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ ایک حقیقت ہو گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران 900 سے زیادہ انٹیلی جنس معلومات سکیورٹی اداروں اور صوبائی حکومتوں کو بھیجی گئیں جن کی بنیاد پر آپریشنز کر کے دہشت گردی کے واقعات کو ہونے سے روک دیا گیا۔

ایک روز قبل ہی پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کا ایک سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تقریبات منعقد کی گئیں۔ اس حملے میں 120 سے زائد بچوں سمیت لگ بھگ 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوششوں سے دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے۔ تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ دہشت گردی کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔

’’میں ساتھ یہ بھی انتباہ کرتا ہوں کہ وہ (دہشت گرد) کمزور ہو گئے ہیں۔ انہیں سرحد پار بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا ہے مگر وہ مایوسی کی حالت میں ہر وقت کوئی کارروائی کرنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ سو اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔ ہمیں ہر وقت متحرک رہنا ہے۔‘‘

رواں ہفتے ہی وزارت داخلہ کی طرف سے قومی اسمبلی کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 285 مدرسے ایسے ہیں جنہیں بیرونی ممالک سے مالی اعانت حاصل ہو رہی ہے۔ ان ممالک میں سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، کویت، ایران، ترکی، امریکہ، برطانیہ اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

وزات داخلہ کے مطابق جن مدارس کی نشاندہی کی گئی ان میں سے 147 مدرسے پنجاب، 95 گلگت بلتستان، 30 بلوچستان، 12 خیبر پختونخوا اور ایک سندھ میں واقع ہے۔

تاہم وزارت داخلہ کی طرف سے ان مدارس کو ملنے والی رقوم کی کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ان کو بیرون ملک سے اور کس قسم کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔

پشاور حملے کے بعد تشکیل دیے گئے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل میں ایک نکتہ مدرسوں کی مالی اعانت کی نگرانی سے متعلق بھی ہے۔ تاہم اس پر ابھی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی جا سکی۔

اس سال امریکہ کے محکمہ خزانہ نے دہشت گرد تنظیموں کی مالی اعانت سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گرد تنظیمیں جرائم پیشہ سرگرمیوں کے علاوہ خیراتی اداروں اور نجی عطیات کے ذریعے رقوم اکٹھی کرتی ہیں۔