پاکستان: ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں تیزی، گیس بحران آرڈرز کی ڈلیوری میں بڑی رکاوٹ

Pakistan textile sector

پاکستان کا تجارتی خسارہ رواں مالی سال کے دوران 25 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ حکومت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے تین سال میں چھ ارب ڈالرکا نیا قرض حاصل کرنے کے لیے مشکل پالیسی فیصلے کر رہی ہے۔ البتہ ایسی صورتِ حال میں پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر نے ملک کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے نئی امیدیں روشن کردی ہیں۔

ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان نے صرف چھ ماہ میں 9 ارب 38 کروڑڈالر مالیت کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی ہیں۔ان مصنوعات میں خام روئی کے علاوہ کاٹن یارن، کپڑے، نٹ ویئر، بیڈویئرز، تولیے، شامیانے، ریڈی میڈگارمنٹس، سلک،سینتھیٹک ٹیکسٹائل منصوعات اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں یہ اضافہ لگ بھگ26 فی صد زیادہ ہے۔

ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں15ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی تھیں جب کہ سال2020 میں یہ برآمدات ساڑھے 12 ارب ڈالرتک ریکارڈ کی گئی تھیں۔

حکام کو توقع ہے کہ مالی سال 2023 میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات 25 ارب ڈالرتک رہے گی۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر مجموعی برآمدات کا 60 فی صد ہے۔

اس صنعت سے جڑے اکثر افراد اس امید کا اظہار کررہے ہیں کہ اگر یہی تیزی برقرار رہی تو پاکستان باآسانی اس سال رکھے گئے 20 ارب ڈالر ٹیکسٹائل برآمدات کے ہدف کو عبور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

ٹیکسٹائل سیکٹر میں تیزی کی وجہ بتاتے ہوئے ٹیکسٹائل کے کاروبار سے منسلک تاجر زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ کرونا وباکے دوران پاکستان میں کاروبار اور صنعتیں کسی حد تک چلتی رہیں۔البتہ بھارت اور بنگلہ دیش میں زیادہ عرصے لاک ڈاؤن رہا، جس سے یہ فائدہ ہوا کہ پاکستانی تاجروں کو مختلف منڈیوں میں بڑے برینڈز سمیت زیادہ آرڈر مل گئے۔یہ وہ آرڈرز تھے جو اس سے قبل بھارت اور بنگلہ دیش کی کمپنیوں کو ملتے تھے۔

SEE ALSO: کیا حکومتِ پاکستان کے پاس منی بجٹ لانے کے علاوہ کوئی اور راستہ تھا؟

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ٹرف یعنی ٹمپوریری اکنامک ری فنانس اسکیم کے تحت آسان شرائط اور کم سود پر قرضے دیے گئے۔جس سے تین ارب ڈالرز کی نئی مشینری درآمد اور پہلے سے موجود ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو مزید وسعت دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ اس موقع اور اقدام سے پاکستان کو امریکا، یورپ اور چین کی روایتی مارکیٹوں کے علاوہ بعض غیر روایتی مارکیٹوں میں بھی اپنا مال زیادہ بڑی تعداد میں بیچنے کا موقع ملا۔

البتہ پاکستان میں ٹیکسٹائل سے منسلک ایک اور بڑا نام جاوید بلوانی کہتے ہیں کہ ملک میں بجلی کا ٹیرف زیادہ ہےجب کہ گیس کی لوڈشیڈنگ بھی جاری ہے جس کے باعث یہ خدشات برقرار ہیں کہ آرڈرز وصول کرنے کے بعد وقت پر ان کی ڈلیوری مکمل نہ ہو سکے۔

تاجر رہنما کا کہنا تھا کراچی، ملک کی مجموعی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 52 فی صد حصہ ڈالتا ہے لیکن شہر کے تمام صنعتی زونز میں تین ماہ سے گیس کی سپلائی معطل ہے۔

انہوں نے کہا کہ گیس بحران نے تاجر برادری کے لیے مشکلات میں اضافہ کردیا ہےاور برآمدی صنعتوں کو گیس کی فراہمی یقینی بنانے کے حکومتی وعدے صرف لفاظی اور زبانی جمع خرچ دکھائی دیتے ہیں۔

آؒل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اوسط 6.75 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو گیس مل رہی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں گیس کی اوسط قیمت 4.05 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ بھارت میں گیس کی قیمت 5.19 ڈالرفی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ اسی طرح بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں بجلی کی قیمت کہیں کم ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اس تمام صورتِ حال کا اثر ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری پر زیادہ لاگت کی صورت میں آتا ہے جس سے پاکستانی مصنوعات کی مسابقت عالمی منڈی اور دیگر ممالک کے مقابلے کم ہو جاتی ہے۔

زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کی جانب سے ٹیکسٹائل پالیسی کا اعلان اور اس حوالے سے اٹھائے گئے کئی اقدامات بہتر ہیں لیکن انہیں خدشہ اس بات کا ہے کہ پاکستان میں اکثر حکومتی پالیسیوں میں تسلسل دکھائی نہیں دیتا جس کی وجہ سے بہتر پالیسیوں پر بھی کچھ عرصے بعد عملدرآمد نظر نہیں آتا۔

دوسری جانب وزیر اعظم کےمشیر برائے تجارت اور سرمایہ کاری عبدالرزاق نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ گیس کے موجودہ بحران سے آنے والے مہینوں میں پیداوار میں 20 فی صد کمی آسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ گیس اور بجلی کی سپلائی کو بہتر بنایا جائے ۔روایتی کے ساتھ غیر روایتی اشیا کی برآمد بڑھائی جائے جن میں آئی ٹی، فارماسیوٹیکل، کیمکلز اور دیگر انجینئیرنگ کی اشیاء شامل ہیں۔

علاوہ ازیں اگر بنگلہ دیش کی بات کی جائے تو گزشتہ مالی سال جب پاکستان نے 15 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی تھیں تو بنگلہ دیش نے اس سال کے اختتام پر 31 ارب ڈالر کی صرف ٹیکسٹائل مصنوعات دنیا کو بیچی تھیں۔

اس کے علاوہ سال 2020 کے اختتام پر بنگلہ دیش 27 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرچکا تھا۔ دوسری جانب بھارت نے رواں مالی سال ٹیکسٹائل اور اس سے جڑی مصنوعات کی برآمدات کا ہدف 44 ارب ڈالرررکھا ہوا ہے جس میں سے 68 فی صد حاصل کیا جاچکا ہے۔

اس کے باوجود ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان جس تیزی سے ٹیکسائل کی مصنوعات کی فروخت بڑھ رہا ہے اگر یہ تسلسل اگلے کئی سال تک جاری رہا تو وہ اس میدان میں بھارت اور بنگلہ دیش دونوں کو جلد پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔