دہشت گرد واقعات کے بعد پاک افغان سرحد پر سکیورٹی سخت

فائل فوٹو

پاکستان میں تین مختلف دہشت گرد واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد ہفتہ کو مجموعی طور پر 70 سے تجاوز کر گئی جب کہ ملک بھر میں سکیورٹی فورسز کی جاری کارروائیوں میں تین مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک اور متعدد کو گرفتار کرنے کا بتایا گیا ہے۔

ان دہشت گرد واقعات کے بعد ملک بھر میں سکیورٹی کو مزید چوکس کر دیا گیا ہے جب کہ فوج کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر نگرانی اور سکیورٹی کو بھی مزید سخت کر دیا گیا ہے۔

جمعہ کو جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 11 سے بڑھ کر 14 ہوگئی جب کہ جمعہ کی شام قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے مرکزی قصبے پارا چنار میں یکے بعد دیگر ہونے والے دو بم دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد 55 تک پہنچ گئی۔

اسی رات کو جنوبی ساحلی شہر کراچی میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے سڑک کنارے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے پولیس اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس میں چار اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

کوئٹہ میں ہوئے واقعے کی ذمہ داری کالعدم جماعت الاحرار اور شدت پسند تنظیم داعش کی طرف سے قبول کرنے کا دعویٰ کیا گیا جب کہ پارا چنا بم دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم لشکرجھنگوی نے قبول کی تھی۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں دعویٰ کیا کہ حالیہ دہشت گرد واقعات کا تعلق سرحد پار (دہشت گردوں کی) آماجگاہوں سے ہے۔

پاکستان اور اس کے پڑوسی ملک افغانستان کے درمیان اپنی اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے دینے کے الزامات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے جو ان کے باہمی تعلقات میں تناؤ کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

دونوں ہی ایک دوسرے کی طرف سے کیے جانے والے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیرداخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کہتے ہیں کہ دہشت گرد دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمن ہیں جن سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون اور اعتماد ناگزیر ہے۔

پاکستان میں سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہفتہ کو علی الصبح پشاور کے مضافات میں ایک کارروائی کرتے ہوئے تین مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جب کہ اس کارروائی میں پولیس کے دو اور فوج کا ایک اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی کارروائیوں میں بھی متعدد افراد کو گرفتار کرنے کا بتایا گیا ہے۔