جوڈیشل کمپلیکس میں دو خود کش بمبار فائرنگ کرتے ہوئے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے جن میں سے ایک نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اُڑا دیا اور دوسرا سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں مارا گیا
اسلام آباد، پشاور —
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کے حساس علاقے میں واقع ’جوڈیشل کمپلیکس‘ میں پیر کو خودکار ہتھیاروں سے لیس خودکش بمباروں کے حملے میں چار افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہو گئے۔
ہائی کورٹ کی عمارت کے قریب عدالتی کمپلیکس میں دو خود کش بمبار فائرنگ کرتے ہوئے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
پشاور پولیس کے سربراہ امتیاز الطاف نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا ’’دو دہشت گرد تھے جو داخل ہوئے، مرکزی دروازے پر پولیس کے سب انسپکٹر اور دو سپاہیوں کو گولی مارنے کے بعد وہ عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ دونوں ہلاک ہو چکے ہیں، ایک نے خودکش دھماکا کیا دوسرے کو پولیس نے مار دیا۔‘‘
فوج کے اضافی دستوں نے پولیس کے ہمراہ علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور تقریباً دو گھنٹوں سے زائد وقت تک وقفے وقفے سے فائرنگ کے تبادلے کے بعد پولیس نے کارروائی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراطلاعات میاں افتخار حسین نے جائے وقوع پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ انتخابات سے قبل دہشت گرد ایسی کارروائیاں کر کے خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں۔
’’پتہ تو بعد میں چلے گا لیکن انتخابات کے لیے ایک فضا بننے جا رہی ہے ان حالات کو خراب کرنے کے لیے (یہ کوشش کی گئی)، پہلے سے یہ بات ہو رہی تھی کہ الیکشن کے آغاز ہی میں ایسے واقعات کیے جائیں گے کہ انتخابات نا ہو سکیں اور یہ اس کا بھی ایک سلسلہ ہو سکتا ہے۔‘‘
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پشاور کے جوڈیشل کمپلیکس‘ پر ہونے والے اس حملے میں تمام جج محفوظ رہے البتہ زخمی ہونے والوں میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
پشاور میں اس سے قبل بھی دہشت گرد حساس تنصیبات ااور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور شہر میں حفاظتی انتظامات کو سخت کرنے کے لیے حالیہ مہینوں میں صوبائی دارالحکومت کے مضافاتی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی اضافی چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں۔
ہائی کورٹ کی عمارت کے قریب عدالتی کمپلیکس میں دو خود کش بمبار فائرنگ کرتے ہوئے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
پشاور پولیس کے سربراہ امتیاز الطاف نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا ’’دو دہشت گرد تھے جو داخل ہوئے، مرکزی دروازے پر پولیس کے سب انسپکٹر اور دو سپاہیوں کو گولی مارنے کے بعد وہ عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ دونوں ہلاک ہو چکے ہیں، ایک نے خودکش دھماکا کیا دوسرے کو پولیس نے مار دیا۔‘‘
فوج کے اضافی دستوں نے پولیس کے ہمراہ علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور تقریباً دو گھنٹوں سے زائد وقت تک وقفے وقفے سے فائرنگ کے تبادلے کے بعد پولیس نے کارروائی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراطلاعات میاں افتخار حسین نے جائے وقوع پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ انتخابات سے قبل دہشت گرد ایسی کارروائیاں کر کے خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں۔
’’پتہ تو بعد میں چلے گا لیکن انتخابات کے لیے ایک فضا بننے جا رہی ہے ان حالات کو خراب کرنے کے لیے (یہ کوشش کی گئی)، پہلے سے یہ بات ہو رہی تھی کہ الیکشن کے آغاز ہی میں ایسے واقعات کیے جائیں گے کہ انتخابات نا ہو سکیں اور یہ اس کا بھی ایک سلسلہ ہو سکتا ہے۔‘‘
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پشاور کے جوڈیشل کمپلیکس‘ پر ہونے والے اس حملے میں تمام جج محفوظ رہے البتہ زخمی ہونے والوں میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
پشاور میں اس سے قبل بھی دہشت گرد حساس تنصیبات ااور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور شہر میں حفاظتی انتظامات کو سخت کرنے کے لیے حالیہ مہینوں میں صوبائی دارالحکومت کے مضافاتی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی اضافی چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں۔