عرفان قادر نے بتایا کہ فوجی آپریشن والے علاقوں سے حراست میں لیے گئے ان افراد کو سول اداروں کی مکمل عمل داری کے بحال ہونے پر انتظامیہ کے حوالے کردیا جائے گا۔
اسلام آباد —
پاکستان کے اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بتایا کہ دہشت گردی میں ملوث سات سو مشتبہ افراد بغیر مقدمہ چلائے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں۔
ان کے بقول ان افراد کو ایسے علاقے سے حراست میں لیا گیا جہاں جنگ کی سی صورتحال ہے اور انھیں سکیورٹی فورسز نے مختلف حفاظتی مراکز میں رکھا گیا ہے۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’’یہ قوانین جنگ کی سی صورتحال کے لیے بنائے گئے ہیں اور اس لیے قانون کی متعلقہ شق اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ان پر مقدمہ چلانے کے لیے انھیں کب حوالے کیا جائے گا۔‘‘
عرفان قادر نے بتایا کہ فوجی آپریشن والے علاقوں سے حراست میں لیے گئے ان افراد کو سول اداروں کی مکمل عمل داری کے بحال ہونے پر انتظامیہ کے حوالے کردیا جائے گا۔
قبل ازیں جمعرات کو سپریم کورٹ میں لاپتہ قیدیوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے پارا چنار میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی زیر حراست سات افراد کے بارے کہا تھا کہ یہ لوگ قبائلی علاقوں میں فوجی قافلوں پر حملوں میں ملوث ہیں اور ان کا ٹرائل مکمل کر لیا جائے گا۔
سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ عدالت قیدیوں کو رہا کرنے کا نہیں بلکہ ان کےخلاف قانون کے مطابق سلوک کرنے کا کہہ رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے اس ضمن میں مشاورت کے لیے مہلت مانگی جس پر مقدمے کی سماعت 28 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر ’جی ایچ کیو‘ اور دیگر عسکری تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہونے کے شبے میں گرفتار کیے جانے والے 11 افراد کو ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی پر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کیے جانے والے ان افراد کو فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا اور بعد میں عدالت عظمیٰ کے نوٹس پر اس بارے میں وکیل راجہ ارشاد نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ 11 میں سے چار افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ دیگر سات افراد سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں۔
ان کے بقول ان افراد کو ایسے علاقے سے حراست میں لیا گیا جہاں جنگ کی سی صورتحال ہے اور انھیں سکیورٹی فورسز نے مختلف حفاظتی مراکز میں رکھا گیا ہے۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’’یہ قوانین جنگ کی سی صورتحال کے لیے بنائے گئے ہیں اور اس لیے قانون کی متعلقہ شق اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ان پر مقدمہ چلانے کے لیے انھیں کب حوالے کیا جائے گا۔‘‘
عرفان قادر نے بتایا کہ فوجی آپریشن والے علاقوں سے حراست میں لیے گئے ان افراد کو سول اداروں کی مکمل عمل داری کے بحال ہونے پر انتظامیہ کے حوالے کردیا جائے گا۔
قبل ازیں جمعرات کو سپریم کورٹ میں لاپتہ قیدیوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے پارا چنار میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی زیر حراست سات افراد کے بارے کہا تھا کہ یہ لوگ قبائلی علاقوں میں فوجی قافلوں پر حملوں میں ملوث ہیں اور ان کا ٹرائل مکمل کر لیا جائے گا۔
سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ عدالت قیدیوں کو رہا کرنے کا نہیں بلکہ ان کےخلاف قانون کے مطابق سلوک کرنے کا کہہ رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے اس ضمن میں مشاورت کے لیے مہلت مانگی جس پر مقدمے کی سماعت 28 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر ’جی ایچ کیو‘ اور دیگر عسکری تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہونے کے شبے میں گرفتار کیے جانے والے 11 افراد کو ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی پر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کیے جانے والے ان افراد کو فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا اور بعد میں عدالت عظمیٰ کے نوٹس پر اس بارے میں وکیل راجہ ارشاد نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ 11 میں سے چار افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ دیگر سات افراد سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں۔