دہشت گرد حملے مذاکرات کے لیے نقصان دہ ہیں: قانون ساز

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے جاری رہنے سے مذاکرات کی حمایت میں کمی آئے گی
پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے بارے میں جمعہ کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں مختلف اراکین نے سوال اُٹھائے جن پر بحث کو سمیٹتے ہوئے قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ فوج کسی بھی طرح کی داخلی و خارجی جارحیت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

راجہ ظفر الحق نے کہا کہ فوجی آپریشن سے متعلق حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے۔

عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ اُن کی وزیراعظم نواز شریف اور سابق آرمی چیف سے ملاقات میں یہ بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی کامیابی کے امکانات 40 فیصد ہیں۔

تاہم اپنے ایک حالیہ بیان میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت کے فوج کے سربراہ نے عمران خان کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی سے ملک بھر میں فوری طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں چالیس فیصد کمی ہو سکتی ہے۔

ملک میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے تناظر میں طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں بعض اراکین سینیٹ نے خدشات کا اظہار کیا۔ اس بارے میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ ’’بات چیت کے بارے میں جو شکوک و شبہات ہیں وہ پیدا ہو جائیں گے اور لوگوں کی مذاکرات کے لیے جو حمایت تھی اُس میں شاید کچھ کمی بھی آ جائے۔‘‘

پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں کہ حالیہ دہشت گرد حملوں کے مذاکرات پر منفی اثرات ہوں گے۔

’’منفی اثر پڑے گا اور اس کو حکومت کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے وزیراعظم نے مذاکرات سے پہلے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور اس تقریر کے بعد دہشت گردی کا یہ کو ئی پہلا واقعہ نہیں ہے پشاور میں روز دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے کراچی میں کل ایک واقعہ ہوا ہے اور آج رینجرز کے کمانڈر پر حملہ ہوا ہے میرے خیال میں یہ مذاکرات پر اثر انداز ہوں گے۔‘‘

کراچی میں جمعرات کو پولیس کی بس پر ہونے والے بم حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان کے ساتھیوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا ردعمل ہے۔ اس حملے میں 12 پولیس اہلکار ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

مبصرین مذاکراتی عمل کے نتیجے میں کسی ٹھوس پیش رفت کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں تاہم حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں نے بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھنے کی اُمید ظاہر کی ہے۔