پاکستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے ملک میں سلامتی کی صورت حال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2015 کی نسبت 2016 میں ملک میں دہشت گرد حملوں میں 28 فیصد کمی آئی ہے، تاہم اب بھی شدت پسند ایک بڑا خطرہ ہیں۔
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2016 میں پاکستان میں کل 441 دہشت گرد حملوں میں 908 افراد ہلاک ہوئے۔
یہ اعداد و شمار تنظیم نے اپنے طور پر ملک میں ہونے والے حملوں کے بعد ریکارڈ کیے۔
گزشتہ سال ملک میں ہونے والے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔
اگرچہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے لیکن رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ عسکری گروہ نئے علاقوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے اپنی سالانہ سکیورٹی رپورٹ میں کہا کہ بلوچستان میں تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی بلوچ باغیوں سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آئے ہیں۔
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے سربراہ عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لشکر جھنگوی العالمی نے ’داعش‘ سمیت دیگر عالمی دہشت گرد گروہوں سے رابطے استوار کر لیے ہیں۔
’’اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج ہے، کہ مختلف دہشت گرد گروہ ہیں وہ دوبارہ کس طرح سے منظم ہو جاتے ہیں، نئے ناموں کے ساتھ یا پرانے ناموں کے ساتھ وہ کس طرح سے دوبارہ سرگرم ہو جاتے ہیں یہ بڑا چیلنج ہے جو ابھی درپیش رہے گا آنے والے کچھ سالوں کے اندر۔‘‘
گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہی میں قائم ایک اور غیر سرکاری تنظیم ’سینیٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 2015 کے مقابلے میں 2016 میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 45 فیصد تک کمی آئی ہے۔
حکومت کی طرف سے بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی کارروائی کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
تاہم خود حکومت کے اعلیٰ عہدیدار بشمول وزیر داخلہ چوہدری نثار یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گردی کا مقابلہ طاقت سے کیا جا رہا ہے اور یہ تجویز دی گئی کہ ملک سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کیا جائے۔
عامر رانا نے کہا کہ دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنے کے لیے بھی موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
’’تحریک طالبان کے کمزور ہونے کا مطلب یہ ہونا چاہیئے تھا کہ ایک پوری کی پوری تحریک کمزور ہو گئی ہے اس کے نتیجے میں کوئی اور قوت سامنے نہیں آنی چاہیئے تھی پہلے بھی یہی ہوتا رہا کہ ایک گروپ کمزور ہوتا ہے اور اسی کی افرادی قوت دوسرے گروپ کے میں شامل ہو جاتی ہے تو ایسے لگ رہا ہے کہ پنجابی طالبان جو کمزور ہوئے منتشر ہوئے وہ اب دوبارہ منظم ہو رہے ہیں لشکر جھنگوی العالمی کے بینر تلے اور جو قبائلی جنگجو تھے وہ جماعت الاحرار کے بینر تلے جمع ہو رہے ہیں۔‘‘
دوسری جانب پیر کو پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا کہ صوبائی محکمہ انسداد دہشت گردی کی موثر کارروائیوں کے سبب صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔
’’جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے کاؤنٹر ٹیررازم فورس جو ہے پنجاب کی وہ دہشت گردی کے خلاف موثر قوت کے طور پر سامنے آ رہی ہے کہ اب تک جو ہے وہ جیٹ بلیک ٹیررسٹ تقریباً 300 کے قریب ایسے دہشت گردوں کو کاؤنٹر ٹیررازم فورس نے ہلاک کیا ہے پولیس مقابلے میں اور اتنی ہی تعداد کو گرفتار کر کے عدالتوں میں انصاف کے کٹہرے میں پیش کیا گیا ہے۔‘‘
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اب جب کہ ملک میں فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہو گئی ہے تو حکومت ملک میں مروجہ ’کریمینل جسٹس سسٹم‘ کو پائیدار بنانے پر توجہ دے۔
تنظیم کی طرف سے کوئٹہ کی سول اسپتال پر حملے سے متعلق سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی قائم کیے گئے کمیشن کی رپورٹ کی حمایت کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لیے مزید اقدامات پر زور دیا گیا۔
اس رپورٹ میں ملک میں انسداد دہشت گردی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا، جس کے بعد مختلف حلقوں بشمول حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف حکومت خاص طور پر وزارت داخلہ کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے۔
تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنے ردعمل میں کہا کہ کوئٹہ حملے سے متعلق عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو تیار کرتے وقت اُن کی وزارت کا موقف شامل نہیں کیا گیا۔