پاکستان کے شہری علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں گزشتہ سال نمایاں کمی دیکھی گئی اور اب ایک غیر سرکاری ادارے نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ ملک کے قبائلی علاقوں میں بھی عسکریت پسندوں کے حملوں میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی صورت حال کے بارے میں کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ’فاٹا ریسرچ سینڑ‘ نے اپنی سالانہ سکیورٹی رپورٹ میں کہا کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں 2016 میں 25 فیصد تک کمی آئی، جس سے 2015 کے مقابلے میں ان علاقوں میں جانی نقصان بھی 60 فیصد تک کم ہوا ہے۔
’فاٹا ریسرچ سینڑ‘ کی رپورٹ میں ظاہر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں سب سے زیادہ ہلاکتیں شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے قبائلی علاقوں میں ہوئیں۔
’فاٹا ریسرچ سینیڑ‘سے وابستہ سلامتی کے اُمور کے تجزیہ کار عرفان الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’2014 کے بعد جب سے فوجی آپریشن شروع ہوا، اُس کے بعد سے ہمیں مسلسل دہشت گردی کے واقعات میں کمی نظر آ رہی ہے۔‘‘
عرفان الدین کہتے ہیں کہ اگرچہ قبائلی علاقوں میں پاکستانی دہشت گرد تنظمیوں کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے لیکن اُن کے بقول سرحد پار افغانستان فرار ہونے والے پاکستانی جنگجو دوبارہ منظم ہو سکتے ہیں اور اُن کے بقول یہ خدشہ برقرار رہے گا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹیڈیز نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2015 کی نسبت 2016 میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں 28 فیصد کمی آئی ہے۔
لیکن پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹیڈیز کی رپورٹ میں بھی متنبہ کیا گیا تھا کہ عسکری گروہ نئے علاقوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے حالیہ بیانات میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے شدت پسندی کے واقعات میں کمی آئی ہے، لیکن حکام بشمول وزیر داخلہ چوہدری نثار یہ کہتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف اگرچہ پاکستان کو نمایاں کامیابیاں ملیں، لیکن شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ملک میں برداشت اور تحمل کے نظریے کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے نا صرف ہزاروں پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ ملک کی معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان بھی پہنچا۔