پروفیسر محمد ابراہیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا صوفی محمد کی رہائی کا معاملہ ’’مختلف‘‘ ہے۔
اسلام آباد —
طالبان شدت پسندوں کے نامزد کردہ ایک مذاکرات کار نے بتایا ہے کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے فراہم کردہ 300 افراد کی فہرست میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے سسر اور بنیاد پرست مذہبی شخصیت صوفی محمد شامل نہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا صوفی محمد کی رہائی کا معاملہ ’’مختلف‘‘ ہے۔
’’یہ اصل میں وہ خاندان ہیں جن کے نوجوان تحریک طالبان پاکستان کا حصہ ہیں اور طالبان کا یہ دعویٰ ہے کہ انہیں کہا جا رہا ہے کہ ان جنگجوؤں کو حکومت کے حوالے کرو تو قیدیوں کو رہا کردیں گے۔‘‘
پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ ان مبینہ قیدیوں کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبرپختونخواہ سے ہے اور ان میں ’’بچے، عورتیں اور بزرگ‘‘ شامل ہیں۔
طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے پیر کو رات گئے ایک بیان میں کہا کہ نواز شریف انتظامیہ کو اس کے بقول غیر عسکری قیدیوں کی ایک فہرست مذاکرات کاروں کے ذریعے مہیا کردی گئی ہے اور حکومت نے اس بارے میں کوئی پیش رفت دکھائی تو مزید ایسے قیدیوں کے نام بھی دیے جائیں گے۔
حکومت میں شامل عہدیدار اور پاکستانی فوج کے ترجمان یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج کی تحویل میں بچے یا عورتیں نہیں ہیں۔
گزشتہ دو سالوں میں خیبرپختونخواہ کے دو بڑے جیل توڑ کر شدت پسند بڑی تعداد میں اپنے ساتھیوں کو رہا کروا چکے ہیں جن میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر جان لیوا حملے کے ایک کلیدی کردار عدنان رشید سمیت کئی اہم کمانڈر شامل تھے۔
تاہم جماعت اسلامی کے سابق قانون ساز پروفیسر ابراہیم کے بقول شدت پسندوں کی طرف سے مذاکرات جاری رکھنا ان مبینہ قیدیوں کی رہائی سے مشروط نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نئی سرکاری مذاکراتی ٹیم کا طالبان شوریٰ سے ملاقات کے لیے ابھی کسی جگہ کا تعین نہیں ہوا تاہم حکومت اور طالبان کی طرف سے جنوبی وزیرستان اور شہر بنوں میں مختلف مقامات زیرغور ہیں۔
طالبان نے مذاکرات کے لیے ایک ایسا علاقہ مختص کرنے کی بھی تجویز دی ہے جہاں فوج کی عمل داری نا ہو اور وہ نقل و حرکت میں آزاد ہوں۔ حکومت کی طرف سے ایسا نا کرنے پر پروفیسر ابراہیم نے منتبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر یہ (پیس زون) قائم نا ہوا تو وہ (طالبان) یہ ہی کہیں گے کہ حکومتی کمیٹی ہم پر اعتماد کرے گی اور جہاں ہم اسے لے کر جائیں گے وہاں مذاکرات کرے گی۔ سیکورٹی بھی ان کی ہوگی۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ طالبان کی مبینہ قیدیوں کی فہرست پر غور ہورہا ہے۔
’’کل تو ابھی (فہرست) ملی ہے۔ اب حکومتی اداروں سے اس متعلق معلومات حاصل کی جائیں گی اور جو حقیقی صورتحال ہوگی اس سے طالبان کمیٹی کو آگاہ کردیا جائے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادوں سمیت پاکستان سے اغواء شدہ تمام شہریوں کو قبائلی علاقوں سے واپس لانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
طالبان یہ بھی چکے ہیں کہ احرارالہند جیسے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف حکومت کارروائی کر سکتی ہے جو بات چیت کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ شدت پسندوں کے خلاف محدود فضائی کارروائیوں کو عارضی طور پر روکنے کے اعلان پر نواز انتظامیہ نے کہا تھا کہ حکومت اور فوج تشدد کی کارروائیوں کا جواب دینے کا حق رکھتی ہے۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا صوفی محمد کی رہائی کا معاملہ ’’مختلف‘‘ ہے۔
’’یہ اصل میں وہ خاندان ہیں جن کے نوجوان تحریک طالبان پاکستان کا حصہ ہیں اور طالبان کا یہ دعویٰ ہے کہ انہیں کہا جا رہا ہے کہ ان جنگجوؤں کو حکومت کے حوالے کرو تو قیدیوں کو رہا کردیں گے۔‘‘
پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ ان مبینہ قیدیوں کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبرپختونخواہ سے ہے اور ان میں ’’بچے، عورتیں اور بزرگ‘‘ شامل ہیں۔
حکومت میں شامل عہدیدار اور پاکستانی فوج کے ترجمان یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج کی تحویل میں بچے یا عورتیں نہیں ہیں۔
گزشتہ دو سالوں میں خیبرپختونخواہ کے دو بڑے جیل توڑ کر شدت پسند بڑی تعداد میں اپنے ساتھیوں کو رہا کروا چکے ہیں جن میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر جان لیوا حملے کے ایک کلیدی کردار عدنان رشید سمیت کئی اہم کمانڈر شامل تھے۔
تاہم جماعت اسلامی کے سابق قانون ساز پروفیسر ابراہیم کے بقول شدت پسندوں کی طرف سے مذاکرات جاری رکھنا ان مبینہ قیدیوں کی رہائی سے مشروط نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نئی سرکاری مذاکراتی ٹیم کا طالبان شوریٰ سے ملاقات کے لیے ابھی کسی جگہ کا تعین نہیں ہوا تاہم حکومت اور طالبان کی طرف سے جنوبی وزیرستان اور شہر بنوں میں مختلف مقامات زیرغور ہیں۔
طالبان نے مذاکرات کے لیے ایک ایسا علاقہ مختص کرنے کی بھی تجویز دی ہے جہاں فوج کی عمل داری نا ہو اور وہ نقل و حرکت میں آزاد ہوں۔ حکومت کی طرف سے ایسا نا کرنے پر پروفیسر ابراہیم نے منتبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر یہ (پیس زون) قائم نا ہوا تو وہ (طالبان) یہ ہی کہیں گے کہ حکومتی کمیٹی ہم پر اعتماد کرے گی اور جہاں ہم اسے لے کر جائیں گے وہاں مذاکرات کرے گی۔ سیکورٹی بھی ان کی ہوگی۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ طالبان کی مبینہ قیدیوں کی فہرست پر غور ہورہا ہے۔
’’کل تو ابھی (فہرست) ملی ہے۔ اب حکومتی اداروں سے اس متعلق معلومات حاصل کی جائیں گی اور جو حقیقی صورتحال ہوگی اس سے طالبان کمیٹی کو آگاہ کردیا جائے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادوں سمیت پاکستان سے اغواء شدہ تمام شہریوں کو قبائلی علاقوں سے واپس لانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
طالبان یہ بھی چکے ہیں کہ احرارالہند جیسے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف حکومت کارروائی کر سکتی ہے جو بات چیت کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ شدت پسندوں کے خلاف محدود فضائی کارروائیوں کو عارضی طور پر روکنے کے اعلان پر نواز انتظامیہ نے کہا تھا کہ حکومت اور فوج تشدد کی کارروائیوں کا جواب دینے کا حق رکھتی ہے۔