بعض اراکین پارلمنٹ کا مطالبہ تھا کہ نواز شریف انتظامیہ کو شدت پسندی سے نمٹنے سے متعلق واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔
اسلام آباد —
وفاقی دارالحکومت میں مسلح افراد کے مہلک حملے کی قانون سازوں نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ حکومت اسلام آباد کو بھی تشدد کی کارروائیوں سے محفوظ بنانے کی ’’اہلیت‘‘ نہیں رکھتی۔
کئی اراکین پارلمنٹ کا مطالبہ تھا کہ نواز شریف انتظامیہ کو شدت پسندی سے نمٹنے سے متعلق واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔
حزب اختلاف کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے رکن نواب یوسف تالپور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’وزیر داخلہ نے پارلیمان میں کہا تھا کہ اسلام آباد محفوظ ترین شہر ہے، تو اب ان سے پوچھا جائے کہ کیا یہ آپ کا محفوظ ترین شہر ہے؟.... طالبان کے علاوہ تو یہاں کوئی سرگرم گروہ ہمیں نظر نہیں آتا۔‘‘
گزشتہ ہفتے ہی وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر نے امور داخلہ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا تھا کہ ملک کے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد کو بھی کالعدم شدت تنظیم تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی کے حملوں کا خطرہ ہے۔ لیکن وفاقی وزیر داخلہ نے اطلاعات کو مسترد کر دیا تھا۔
خیبرپختونخواہ میں حکمران اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسلام آباد کے واقعے پر بیرونی قوتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
’’وہ پاکستان میں امن نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوج ان کی جنگ لڑے.... شمالی وزیرستان میں آپریشن کسی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔‘‘
طالبان کی مقرر کردہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سمیع الحق بھی عمران خان کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس سے معلوم ہو گیا کہ یہاں بہت سی قوتیں کار فرما تھیں اور ہر بات طالبان کے کھاتے میں ڈال دی جاتی تھی۔ آج بھی انھوں (طالبان) نے کہا کہ ہم نے یہ حملہ نہیں کیا۔ ایجنسیوں کا یہ کام ہے کہ انھیں بے نقاب کریں۔‘‘
تاہم کراچی کی بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قانون ساز خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں تاخیر انہیں منظم ہونے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
’’جو لوگ کہتے ہیں کہ طالبان ان کارروائیوں میں ملوث نہیں تو پھر ہمارا ان سے سوال ہے کہ ان سے پھر مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں؟۔‘‘
کئی اراکین پارلمنٹ کا مطالبہ تھا کہ نواز شریف انتظامیہ کو شدت پسندی سے نمٹنے سے متعلق واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔
حزب اختلاف کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے رکن نواب یوسف تالپور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’وزیر داخلہ نے پارلیمان میں کہا تھا کہ اسلام آباد محفوظ ترین شہر ہے، تو اب ان سے پوچھا جائے کہ کیا یہ آپ کا محفوظ ترین شہر ہے؟.... طالبان کے علاوہ تو یہاں کوئی سرگرم گروہ ہمیں نظر نہیں آتا۔‘‘
گزشتہ ہفتے ہی وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر نے امور داخلہ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا تھا کہ ملک کے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد کو بھی کالعدم شدت تنظیم تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی کے حملوں کا خطرہ ہے۔ لیکن وفاقی وزیر داخلہ نے اطلاعات کو مسترد کر دیا تھا۔
’’وہ پاکستان میں امن نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوج ان کی جنگ لڑے.... شمالی وزیرستان میں آپریشن کسی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔‘‘
طالبان کی مقرر کردہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سمیع الحق بھی عمران خان کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس سے معلوم ہو گیا کہ یہاں بہت سی قوتیں کار فرما تھیں اور ہر بات طالبان کے کھاتے میں ڈال دی جاتی تھی۔ آج بھی انھوں (طالبان) نے کہا کہ ہم نے یہ حملہ نہیں کیا۔ ایجنسیوں کا یہ کام ہے کہ انھیں بے نقاب کریں۔‘‘
تاہم کراچی کی بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قانون ساز خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں تاخیر انہیں منظم ہونے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
’’جو لوگ کہتے ہیں کہ طالبان ان کارروائیوں میں ملوث نہیں تو پھر ہمارا ان سے سوال ہے کہ ان سے پھر مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں؟۔‘‘