لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے جمعہ کو کہا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کرنے کی شرط سے بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہو گا۔
اسلام آباد —
پاکستانی طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی میں شامل مولانا عبدالعزیز نے کہا ہے کہ جب تک شریعت کے نفاذ کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جاتا وہ بات چیت کا حصہ نہیں بنیں گے۔
’’یہ فیصلہ صرف میرا ہے، یہ فیصلہ طالبان کا بھی نہیں ہے... مولانا سمیع الحق کو مکمل اختیار دیتا ہوں کہ مجھے ہٹا کر کسی اور کمیٹی میں شامل کریں۔
لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے جمعہ کو کہا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کرنے کی شرط سے بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہو گا۔
’’جن سے ہم مذاکرات کرنے جا رہے ہیں…. وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس آئین کو نہیں مانتے اور آپ کا اصرار ہے کہ مروجہ آئین کے دائرے ہی میں مذاکرات ہوں گے۔۔۔ (اس) شرط سے مذاکرات کے عمل میں تعطل پیدا ہو گا۔‘‘
اُدھر پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ملک میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی کامیابی کے لیے جو بھی ممکن ہوا وہ کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ بات چیت کا مقصد کسی (کی حیثیت کو) جائز قرار دینا نہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو غیر قانونی راستہ اختیار کیے ہوئے ہوں اُنھیں روکا جائے۔
’’یہ غیر قانونی کاموں کو روکنے کا ایک طریقہ ہے، مذاکرات بھی ایک (ٹول) ہوتے ہیں کہ لوگوں کو غیر قانونی راستوں سے نکال کے قانون کے دیئے ہوئے راستوں پر چلنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔‘‘
پرویز رشید نے کہا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی کسی نے مخالفت نہیں کی۔
’’سب نے حمایت کی ہے۔۔۔ امریکہ نے تو کہا ہے کہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ہم اس میں دخل نہیں دیتے لیکن سب نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اپنے مسائل و مشکلات کو حل کرنے میں جلد کامیاب ہو۔‘‘
حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں کا پہلا اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا تھا جس میں حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی نے کہا تھا کہ بات چیت مکمل طور پر ملک کے آئین کی متعین کردہ حدود کے اندر ہونی چاہیئے۔
طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا تھا کہ حکومت کی کمیٹی کے پیش کردہ نکات سے طالبان کی اعلٰی قیادت کو آگاہ کیا جائے گا جس کے بعد آئندہ ملاقات طے کی جائے گی۔
’’یہ فیصلہ صرف میرا ہے، یہ فیصلہ طالبان کا بھی نہیں ہے... مولانا سمیع الحق کو مکمل اختیار دیتا ہوں کہ مجھے ہٹا کر کسی اور کمیٹی میں شامل کریں۔
لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے جمعہ کو کہا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کرنے کی شرط سے بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہو گا۔
’’جن سے ہم مذاکرات کرنے جا رہے ہیں…. وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس آئین کو نہیں مانتے اور آپ کا اصرار ہے کہ مروجہ آئین کے دائرے ہی میں مذاکرات ہوں گے۔۔۔ (اس) شرط سے مذاکرات کے عمل میں تعطل پیدا ہو گا۔‘‘
اُدھر پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ملک میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی کامیابی کے لیے جو بھی ممکن ہوا وہ کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ بات چیت کا مقصد کسی (کی حیثیت کو) جائز قرار دینا نہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو غیر قانونی راستہ اختیار کیے ہوئے ہوں اُنھیں روکا جائے۔
’’یہ غیر قانونی کاموں کو روکنے کا ایک طریقہ ہے، مذاکرات بھی ایک (ٹول) ہوتے ہیں کہ لوگوں کو غیر قانونی راستوں سے نکال کے قانون کے دیئے ہوئے راستوں پر چلنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔‘‘
پرویز رشید نے کہا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی کسی نے مخالفت نہیں کی۔
’’سب نے حمایت کی ہے۔۔۔ امریکہ نے تو کہا ہے کہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ہم اس میں دخل نہیں دیتے لیکن سب نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اپنے مسائل و مشکلات کو حل کرنے میں جلد کامیاب ہو۔‘‘
حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں کا پہلا اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا تھا جس میں حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی نے کہا تھا کہ بات چیت مکمل طور پر ملک کے آئین کی متعین کردہ حدود کے اندر ہونی چاہیئے۔
طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا تھا کہ حکومت کی کمیٹی کے پیش کردہ نکات سے طالبان کی اعلٰی قیادت کو آگاہ کیا جائے گا جس کے بعد آئندہ ملاقات طے کی جائے گی۔