ٹیم کے سربراہ عرفان صدیقی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’’اب تک کا جو وقت گزرا ہے وہ (شدت پسند) اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ‘‘
اسلام آباد —
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے شدت پسندوں سے بات چیت کرنے کے لیے حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی ٹیم کو گزشتہ چند ماہ سے جاری کوششوں اور رابطوں پر تفصیلی بریفنگ دی ہے۔
ٹیم کے سربراہ عرفان صدیقی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ٹیم نے وزیر داخلہ کی طرف سے رابطوں پر بھی غور کیا ہے۔
ادھر مذاکراتی ٹیم کے رکن اور ایک خفیہ ادارے کے سابق افسر محمد عامر نے مذہبی و سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور اسلام آباد کی لال مسجد کے مرکزی خطیب مولانا عبدالعزیز سے رابطے کیے۔ بعد میں ایک مقامی ٹی وی چینل کے مطابق محمد عامر نے مولانا عبدالعزیز سے رابطے کی تردید کی۔
عرفان صدیقی نے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ٹیم کے اراکین کو اپنی ذاتی حیثیت میں ان شخصیات سے رابطہ کرنے کی اجازت ہے جو کہ ان کی نظر میں کسی بھی طرح شدت پسندوں سے بات چیت کا عمل شروع کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیم کی طرف سے باقاعدہ رابطوں کا آغاز کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ردعمل اور مذاکراتی ٹیم کے اعلان کے بعد ہی کیا جائے گا۔
’’ایسا کوئی بیلو پرنٹ یا پلان یا ایجنڈہ (نہیں) جو ہم نے واضح کرلیا ہو جو ہمارے پیش نظر ہے۔ ایجنڈے کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ معاملات، مذاکرات کا دروازہ کھلے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب سے جنگ بندی اس عمل کے لیے ’’اچھا اور خوشگوار سماء‘‘ کو یقینی بنائے گا۔
’’دہشت گردی کی واردات یا کوئی بھی ایسا واقعہ ہوجس سے پھر ایسی بات اٹھے کہ کیا آپ بات چیت کررہے ہیں۔ تو توقع کی جاتی ہے کہ ایسے واقعات نہیں ہوں گے اور سیز فائز کا مطلب یہ ہے کہ نا ادھر سے کوئی آپریشن ہورہا ہے اور نا وہاں سے کوئی واردات ہورہی ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کو مذاکراتی ٹیم سے ملاقات میں بات چیت کے عمل کو جلد شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ حزب اختلاف اور چند حلقوں کی طرف سے مجوزہ مذاکرات کے ٹائم فریم کے مطالبے پر عرفان صدیقی کا کہنا تھا۔
’’اب تک کا جو وقت گزرا ہے وہ (شدت پسند) اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس پر گفتگو کررہے ہیں۔ کچھ ان کی شوریٰ کے نمائندوں، شامل جماعتوں نے ہمارے لوگوں سے کچھ رابطے بھی کیے ہیں۔ ہم ٹائم فریم نہیں دے رہے لیکن ساتھ ساتھ ہمیں یقین ہے کہ یہ سالوں یا مہنوں کا کھیل نہیں ہوگا۔ یہ ہفتوں اور دنوں کا معاملہ ہوگا۔‘‘
مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جمیعت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان جنگ بندی بظاہر ممکن نہیں۔
’’طالبان کا خیال ہے کہ یہ کوئی اور مذاق نا ہو اور اسی طرح حکومت کا خیال ہے کہ شاید وہ سنجیدہ نہیں مذاکرات کے لیے لہذا دونوں طرف سے چیلنجز بہت ہیں۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی سے پہلے دیگر اعتماد سازی کے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
’’پہلے تو تمام سایسی جماعتوں کو واضح طور پر اس کی حمایت کرنا ہوگی۔ دوسرا انھوں نے (مذاکراتی ٹیم کو یہ کہنا ہوگا کہ ہم صرف برف کو پگھلانے جارہے ہیں اور مذاکرات ان کے (قبائلی) لوگ کریں گے اور ہم ان کی معاونت کریں گے۔‘‘
جان اچکزئی کے مطابق مذاکراتی ٹیم کے رکن اور جمیعت کے سربراہ کے درمیان ملاقات اتوار کو متوقع ہے جبکہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی طرف سے موصول ہونے والے ’’اشاروں‘‘ کے مطابق وہ آئندہ ایک یا دو روز میں بات چیت کے اس عمل پر اپنا باقاعدہ ردعمل دیں گے۔
ٹیم کے سربراہ عرفان صدیقی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ٹیم نے وزیر داخلہ کی طرف سے رابطوں پر بھی غور کیا ہے۔
ادھر مذاکراتی ٹیم کے رکن اور ایک خفیہ ادارے کے سابق افسر محمد عامر نے مذہبی و سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور اسلام آباد کی لال مسجد کے مرکزی خطیب مولانا عبدالعزیز سے رابطے کیے۔ بعد میں ایک مقامی ٹی وی چینل کے مطابق محمد عامر نے مولانا عبدالعزیز سے رابطے کی تردید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیم کی طرف سے باقاعدہ رابطوں کا آغاز کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ردعمل اور مذاکراتی ٹیم کے اعلان کے بعد ہی کیا جائے گا۔
’’ایسا کوئی بیلو پرنٹ یا پلان یا ایجنڈہ (نہیں) جو ہم نے واضح کرلیا ہو جو ہمارے پیش نظر ہے۔ ایجنڈے کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ معاملات، مذاکرات کا دروازہ کھلے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب سے جنگ بندی اس عمل کے لیے ’’اچھا اور خوشگوار سماء‘‘ کو یقینی بنائے گا۔
’’دہشت گردی کی واردات یا کوئی بھی ایسا واقعہ ہوجس سے پھر ایسی بات اٹھے کہ کیا آپ بات چیت کررہے ہیں۔ تو توقع کی جاتی ہے کہ ایسے واقعات نہیں ہوں گے اور سیز فائز کا مطلب یہ ہے کہ نا ادھر سے کوئی آپریشن ہورہا ہے اور نا وہاں سے کوئی واردات ہورہی ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کو مذاکراتی ٹیم سے ملاقات میں بات چیت کے عمل کو جلد شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ حزب اختلاف اور چند حلقوں کی طرف سے مجوزہ مذاکرات کے ٹائم فریم کے مطالبے پر عرفان صدیقی کا کہنا تھا۔
’’اب تک کا جو وقت گزرا ہے وہ (شدت پسند) اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس پر گفتگو کررہے ہیں۔ کچھ ان کی شوریٰ کے نمائندوں، شامل جماعتوں نے ہمارے لوگوں سے کچھ رابطے بھی کیے ہیں۔ ہم ٹائم فریم نہیں دے رہے لیکن ساتھ ساتھ ہمیں یقین ہے کہ یہ سالوں یا مہنوں کا کھیل نہیں ہوگا۔ یہ ہفتوں اور دنوں کا معاملہ ہوگا۔‘‘
مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جمیعت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان جنگ بندی بظاہر ممکن نہیں۔
’’طالبان کا خیال ہے کہ یہ کوئی اور مذاق نا ہو اور اسی طرح حکومت کا خیال ہے کہ شاید وہ سنجیدہ نہیں مذاکرات کے لیے لہذا دونوں طرف سے چیلنجز بہت ہیں۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی سے پہلے دیگر اعتماد سازی کے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
’’پہلے تو تمام سایسی جماعتوں کو واضح طور پر اس کی حمایت کرنا ہوگی۔ دوسرا انھوں نے (مذاکراتی ٹیم کو یہ کہنا ہوگا کہ ہم صرف برف کو پگھلانے جارہے ہیں اور مذاکرات ان کے (قبائلی) لوگ کریں گے اور ہم ان کی معاونت کریں گے۔‘‘
جان اچکزئی کے مطابق مذاکراتی ٹیم کے رکن اور جمیعت کے سربراہ کے درمیان ملاقات اتوار کو متوقع ہے جبکہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی طرف سے موصول ہونے والے ’’اشاروں‘‘ کے مطابق وہ آئندہ ایک یا دو روز میں بات چیت کے اس عمل پر اپنا باقاعدہ ردعمل دیں گے۔