مذاکرات کاروں نے امید کا اظہار کیا ہے کہ اعتماد سازی کی بحالی کے ساتھ ساتھ دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا۔
اسلام آباد —
پاکستان میں حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے مذاکرات کار اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ بات چیت کے عمل میں خوش اسلوبی سے پیش رفت ہو گی اور دونوں طرف سے مطالبات پر حوصلہ افزا جواب سامنے آئیں گے۔
سرکاری مذاکرات کاروں اور طالبان کی سیاسی شوریٰ کے درمیان رواں ہفتے کے اوائل میں قبائلی علاقے وزیرستان میں پہلی براہ راست ملاقات ہوئی تھی جس کی تفصیلات سے حکومتی کمیٹی کے ارکان نے بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کو آگاہ کیا تھا۔
وزیرداخلہ چودھری نثار کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کاروں کی براہ راست ملاقات کی تفصیلات اور اس میں ہونے والے تبادلہ خیال سے وزیراعظم نواز شریف کو مطلع کریں گے جس کے بعد ہی کوئی پیش رفت ہو سکے گی۔
طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دونوں طرف سے مطالبات سامنے آئے ہیں اور فی الحال کسی فریق نے بھی کسی مطالبے کا منفی جواب نہیں دیا۔
’’ اس وقت اجلاس میں اعتماد سازی کی بحالی کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ مذاکرات کا یہ عمل جاری رہے گا اور ان مطالبات میں سرفہرست قیدیوں کی رہائی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اعتماد کی بحالی کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف سے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔‘‘
طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے مطابق طالبان کی طرف تین سے چار سو قیدیوں کی فہرست دی گئی ہے جس کے بارے میں ان کے بقول حکومت نے تفتیش اور تحقیق کا وعدہ کیا ہے۔
سرکاری کمیٹی میں شامل سابق سفارتکار رستم شاہ مہمند بھی طالبان شوریٰ سے ہونے والی ملاقات میں موجود تھے اور ان کے خیال میں دوسرا فریق بھی بات چیت کے ذریعے امن کی راہ تلاش کرنا چاہتا ہے۔
قیدیوں کی رہائی یا تبادلے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک ہی ملاقات میں تمام معاملات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
’’ایک ہی اجلاس میں یہ سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ جب حکومت سے ہماری مشاورت ہو گی تو اس کے بعد حکومت کوئی کارروائی کرے گی۔ اس کے بعد وہ (طالبان) میرے خیال میں سلمان تاثیر کے بیٹے، یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے اور ڈاکٹر اجمل کو چھوڑنے پر راضی ہو جائیں گے۔ یکم اپریل سے پہلے ملاقات ہونی چاہیے کیونکہ فائربندی میں توسیع کروائی جاسکے۔‘‘
حکومت نے رواں سال کے اوائل میں طالبان شدت پسندوں سے بات چیت کا عمل شروع کیا تھا لیکن بعد ازاں ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد نہ صرف یہ عمل معطل کر دیا گیا بلکہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر سکیورٹی فورسز نے فضائی کارروائیاں کر کے درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک اور ان کی پناہ گاہوں کو تباہ کردیا تھا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے یکم مارچ سے یکطرفہ فائر بندی کے اعلان کے بعد مذاکراتی عمل بحال ہو چکا ہے اور مذاکرات کار پر امید ہیں کہ حالیہ پیش رفت کے بعد فائربندی کی مدت میں توسیع بھی ہو سکے گی۔
سرکاری مذاکرات کاروں اور طالبان کی سیاسی شوریٰ کے درمیان رواں ہفتے کے اوائل میں قبائلی علاقے وزیرستان میں پہلی براہ راست ملاقات ہوئی تھی جس کی تفصیلات سے حکومتی کمیٹی کے ارکان نے بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کو آگاہ کیا تھا۔
وزیرداخلہ چودھری نثار کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کاروں کی براہ راست ملاقات کی تفصیلات اور اس میں ہونے والے تبادلہ خیال سے وزیراعظم نواز شریف کو مطلع کریں گے جس کے بعد ہی کوئی پیش رفت ہو سکے گی۔
طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دونوں طرف سے مطالبات سامنے آئے ہیں اور فی الحال کسی فریق نے بھی کسی مطالبے کا منفی جواب نہیں دیا۔
’’ اس وقت اجلاس میں اعتماد سازی کی بحالی کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ مذاکرات کا یہ عمل جاری رہے گا اور ان مطالبات میں سرفہرست قیدیوں کی رہائی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اعتماد کی بحالی کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف سے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔‘‘
طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے مطابق طالبان کی طرف تین سے چار سو قیدیوں کی فہرست دی گئی ہے جس کے بارے میں ان کے بقول حکومت نے تفتیش اور تحقیق کا وعدہ کیا ہے۔
سرکاری کمیٹی میں شامل سابق سفارتکار رستم شاہ مہمند بھی طالبان شوریٰ سے ہونے والی ملاقات میں موجود تھے اور ان کے خیال میں دوسرا فریق بھی بات چیت کے ذریعے امن کی راہ تلاش کرنا چاہتا ہے۔
قیدیوں کی رہائی یا تبادلے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک ہی ملاقات میں تمام معاملات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
’’ایک ہی اجلاس میں یہ سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ جب حکومت سے ہماری مشاورت ہو گی تو اس کے بعد حکومت کوئی کارروائی کرے گی۔ اس کے بعد وہ (طالبان) میرے خیال میں سلمان تاثیر کے بیٹے، یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے اور ڈاکٹر اجمل کو چھوڑنے پر راضی ہو جائیں گے۔ یکم اپریل سے پہلے ملاقات ہونی چاہیے کیونکہ فائربندی میں توسیع کروائی جاسکے۔‘‘
حکومت نے رواں سال کے اوائل میں طالبان شدت پسندوں سے بات چیت کا عمل شروع کیا تھا لیکن بعد ازاں ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد نہ صرف یہ عمل معطل کر دیا گیا بلکہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر سکیورٹی فورسز نے فضائی کارروائیاں کر کے درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک اور ان کی پناہ گاہوں کو تباہ کردیا تھا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے یکم مارچ سے یکطرفہ فائر بندی کے اعلان کے بعد مذاکراتی عمل بحال ہو چکا ہے اور مذاکرات کار پر امید ہیں کہ حالیہ پیش رفت کے بعد فائربندی کی مدت میں توسیع بھی ہو سکے گی۔