افغانستان کی طالبان عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ کی قیادت میں طالبان کا ایک اعلی سطحی وزارتی وفد ایسے میں پاکستان کا دورہ کر رہاہے جبکہ وہاں جمعرات کے روز افغانستان پر ایک ٹرائیکا پلس اجلاس ہو رہا ہے۔
افغانستان میں مستقبل کے حوالے سے تجزیہ کار اور ماہرین اس اجلاس کو بہت اہمیت دے رہےہیں۔ اجلاس میں امریکہ، روس اور چین کے اعلی نمائیندے شرکت کر رہے ہیں۔ ادھر افغانستان کے بارے میں بھارت میں بھی بدھ کے روز ایک اجلاس ہوا ہے جس میں پاکستان اور چین نے شرکت نہیں کی۔
پروفیسر حسن عسکری بین الاقوامی امور کے ماہر ہیں۔ اس اجلاس کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ میٹنگ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اوّل تو یہ کہ بقول ان کے یہ طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ کا پہلا دورہ ہے جبکہ پاکستان باضابطہ طور پر ابھی وہاں کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔
لیکن اس طرح یہ پاکستان کی طرف سے ایک طرح سے Implied recognition یا بالواسطہ طور پر تسلیم کئے جانے کے مترادف ہے۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس طرح افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ ایک انٹر ایکشن بھی بنتا ہے۔ کیونکہ اس وقت امریکہ کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ داعش خراسان یا القاعدہ جیسی دوسری دہشت گرد تنظیمیں نہ پنپنے پائیں جو آگے چل کر دنیا کے لئے خطرہ بنیں۔
انہوں نے کہا کہ اس لحاظ سے یہ ایک محفوظ حکمت عملی ہے کہ گفتگو پاکستان کے اندر ہو۔ تاکہ طالبان کی حکومت کو فوری طور پر تسلیم بھی نہ کرنا پڑے اور فاصلہ بھی برقرار رہے اور معاملات کو بھی آگے بڑھایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک عملیت پسندانہ انداز فکر ہے جو پاکستان اور دوسرے ممالک افغانستان کے مسئلے سے ایسے میں نمٹنے کے لئے اختیار کر رہے ہیں جبکہ وہ اسے باضابطہ طور پر بوجوہ تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت میں بدھ کے روز ہونے والی میٹنگ کے بارے میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے پروفیسر حسن عسکری نے کہا کہ یہ بات پہلے ہی سے سب جانتے تھے کہ پاکستان اور چین وہاں نہیں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت براہ راست تو افغانستان کی کوئ مدد نہیں کر سکتا کیونکہ دونوں کی سرحدیں نہیں ملتی ہیں۔لیکن اس نے ایک پلئیر کے طور پر گیم میں اپنے آپ کو شامل رکھنے کے لئے یہ کانفرنس کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اس سے کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پائے گا کیوںکہ بقول انکے بھارت افغانستان کی سابقہ حکومت کا بہت بڑا حامی اور مددگار رہا ہے اور اس سے قبل حامد کرزئی کی حکومت کا بھی وہ خطے میں سب سے بڑا مددگار رہا ہے اور یہ طالبان اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لئے اسے ان کے خیال میں طالبان کے حلقوں میں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہے اور اسی سبب سے افغاںستان کے معاملے میں بھارت کا کوئی بڑا کردار ادا کرنے کا امکان بہت محدود ہے۔
ادھر بھارت کے ایک ممتاز تجزیہ کا راہول دیو نے بھارت میں ہونے والی کانفرنس کے بارے میں کہا کہ بدھ کے روز بھارت میں ہونے والی کانفرنس اس لحاظ سے اہم ہے کہ افغانستان کی صورت حال پر خاص طور سے خطے کے سب ہی ملکوں کو تشویش ہے اور کانفرنس میں شریک ملکوں کے نمائندوں نے اپنی مشترکہ تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا اس کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ بھارت یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے سلسلے میں جو بھی ہو رہا ہے یا آئیندہ ہوگا اس میں وہ شامل رہے۔ اسے الگ رکھنے کی کوششیں بھی ہوئیں۔اور چونکہ افغانستان میں بھارت کے اپنے مفادات بھی بہت گہرے ہیں۔ اس لئے وہ چاہتا کہ اس معاملے سے اسکا جو ایک International relevance ہے وہ قائم رہے۔ اور وہاں کے معاملات میں اس کا عمل دخل بدستور رہے۔
کانفرنس پر طالبان کے رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ طالبان کی جانب سے اس پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا ہے بلکہ بقول ان کے طالبان کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس سے افغانستان میں سیکیورٹی اور معاشی صورت حال بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
کانفرنس میں پاکستان اور چین کی عدم شرکت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر متوقع بات نہ تھی پھر پاکستان اور چین ایک بلاک کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ اسی لئے جب پاکستان نے نہ آنے کا فیصلہ کیا تو چین بھی اس لئے نہیں آیا کہ پاکستان اکیلا نہ رہ جائے۔
افغانستان کی سابقہ حکومتوں سے بھارت کے گہرے تعلقات پر طالبان کے رد عمل کے بارے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور سب جانتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں استحکام چاہتا ہے۔
افغانستان کے بڑے بڑے لوگوں نے جو حکومتوں میں اعلی مناصب پر رہے بھارت میں تعلیم حاصل کی۔ اور بھارت نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی۔
جمعرات کے روز پاکستان میں افغانستان پر ہونے والی میٹنگ کے بارے میں ان کا کہنا تھا پاکستان کے بھی اپنے مفادات ہیں اور اسے حق ہے کہ وہ ان کے لئے کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جو محل وقوع اورجیو اسٹریٹیجک لوکیشن ہے وہ اسکے باوجود اسے ایک اہم ملک بنائے رکھے گا کہ وہاں مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے کئ ملکوں کے تحفظات ہیں۔ اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے نہ ہندوستان نہ کوئی اور دوسرا ملک۔