طالبان سے مذاکرات کے طریقہ کار پر اختلافات

کانفرنس میں شامل جمیعت سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا کہ قبائلی علاقوں سے متعلق فیصلوں میں انہیں نظر انداز کیا گیا ہے
اسلام آباد میں جمعرات کو حزب اختلاف کی مذہبی سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے تحت ہونے والی کل جاعتی کانفرنس میں سیاسی رہنماؤں نے ایک بار پھر قیام امن کے لیے کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کرنے کی حمایت کی تاہم اس مجوزہ بات چیت کے طریقہ کار پر بظاہر کانفرنس کے شرکاء میں اختلاف دیکھنے میں آیا۔

حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے نمائندوں کا مطالبہ تھا کہ شدت پسندوں سے مذاکرات ملکی آئین و قانون کے تحت ہونے چاہیں جبکہ دوسری جانب سے اس عمل کے آغاز سے پہلے شرائط عائد کرنے کی مخالفت کی گئی۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس وقت حالات کی سگینی کا احساس کرتے ہوئے متفقہ طور پر درست اقدامات نہ کئے گئے تو ملک میں حالات مزید ابتر ہو جائیں گے جو کہ ملکی سلامتی و بقا کے لیے خطرناک ہے۔

’’یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ تمام مسائل کو ٹھیک کرنے کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ کچھ لینا ہوگا اور کچھ دینا ہوگا۔‘‘

جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکہ کی لڑائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ شدت پسندی کا خاتمہ صرف اس جنگ سے باہر آنے ہی سے ممکن ہے۔

’’یاسر عرفات اور نیلسن منڈیلا کو بھی دہشت گرد کہا جاتا تھا مگر وہ بھی جمہوریت پسند کہلائے اور مذاکرات کی میز پر انہیں بلایا گیا۔ تو اس لیے مذاکرات کے علاوہ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ طالبان نے اگر پیش کش کی ہے تو حکومت اور فوج کو قبول کرنی چاہیے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو مذاکرات سے متعلق فضا بھی سودمند بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔ ’’شرائط پر بات چیت مذاکرات کی میز ہونے چاہیے تھے بجائے اس پر بیان بازی کی جاتی۔ شرطیں دونوں پیش کریں گے جو کم اور زیادہ ہو جائیں گی۔‘‘

تاہم حکومتی اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سنیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات ملکی آئین و قانون کے تحت ہو تو وہ تمام جماعتوں کو قابل قبول ہوگا۔

’’پاکستان میں کوئی غیر ملکی فوج نہیں اور ملک کا آئین حکومت یا ایک جماعت کا نہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ جیسا افغانستان میں ہوگا ہو بہو پاکستان میں ہوگا درست نہیں۔‘‘

کانفرنس میں شامل جمیعت سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا کہ قبائلی علاقوں سے متعلق فیصلوں میں انہیں نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ وہ اب بھی قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات میں بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔