پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں نوجوان طالب علم مشال خان کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔
ہفتہ کو دیر گئے سپریم کورٹ سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پیش آنے والے اس واقعے کا نوٹس اس بارے میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں اور معلومات کی بنیاد پر لیا گیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ سے 36 گھنٹوں میں اس واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا کہا ہے۔
جمعرات کو مردان کی اس یونیورسٹی میں طلبا کے ایک مشتعل ہجوم نے مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس واقعے کی ملک بھر میں شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے جب کہ وزیراعظم نوازشرف نے بھی ہفتہ کو ایک بیان میں کہا کہ قوم اس جرم کی مذمت اور معاشرے میں برداشت اور قانون کی بالادستی کے فروغ کے لیے متحد ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست قانون ہاتھ میں لینے والوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی اور اس واقعے کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
پولیس کی جانب سے کی گئی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مشال خان کے توہین مذہب کے مرتکب ہونے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایسے الزام کا سامنا کرنے والوں کی ہلاکت کا یہ پاکستان میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
2014ء میں پنجاب کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے ایک مسیحی جوڑے کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ حالت میں ہی اینٹوں کے بھٹے کی آگ میں ڈال دیا تھا۔
ناقدین اور مختلف سماجی حلقے ایسے واقعات میں ملزمان کی سلامتی کے پیش نظر حکومت سے ٹھوس اقدام کرنے کے مطالبات بھی کرتے رہے ہیں۔