سپریم کورٹ آف پاکستان میں ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں حکومتی اتحاد کی طرف سے فل کورٹ بینچ کی تشکیل کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران طویل سماعت ہوئی جس میں تین سیشن منعقد ہوئے۔ ان سیشنز میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر ایڈوکیٹ اور سپریم کورٹ کے تینوں ججز کے ساتھ ان کی کئی بار بحث ہوئی، دن کے وقت ایک بار تلخ ماحول بھی دیکھنے میں آیا، تاہم شام کے وقت ججز نے نرم لہجہ میں عرفان قادر سے بات چیت کی اور انہوں نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
دن کے وقت عرفان قادر اور ججز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ اس وقت ہوا جب دلائل کے دوران عرفان قادر نے کہا کہ میری اس کیس کے حوالے سے درخواست ہے کہ ایک ہی تین رکنی بینچ کے ایک جیسے مقدمات سننے سے عوام میں جو تاثر ابھر رہا ہے اسے رد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
عرفان قادر نے کہا کہ عدالت نے جو قانونی سوال پوچھنا ہے وہ لکھ دیں کیونکہ ان کے لاہور میں ہونے والی سماعت کے بعد جو شارٹ آرڈر آیا تھا اس میں بھی ابہام موجود ہے، میں خود کنفیوز ہوں۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا حصہ پڑھیں جس پر انحصار کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر نے فیصلہ دیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن جب بات کررہے تھے تو عرفان قادر اپنی بات کرتے رہے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب بینچ کے رکن بول رہے ہوں تو وہ خاموش ہوجایا کریں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اب اگر آپ نے عدالتی کارروائی میں مداخلت کی تو آپ کو واپس کرسی پر بٹھا دیا جائے گا۔
SEE ALSO: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ، آرٹیکل چھ پھر موضوعِ بحثاس پر عرفان قادر نے کہا کہ یہ عدالت کی مرضی ہے کہ وہ کسی کو بھی بٹھا دے لیکن آئین کے آرٹیکل 14 میں احترام انسان کا لکھا گیا ہے، احترام جج کا نہیں۔
اس کے بعد عدالت نے انہیں وہ پیراگراف پڑھنے کے لیے کہا جس پر عرفان قادر نے کہا کہ وہ تیسرا پیرا گراف پڑھنے سے پہلے دو مزید پیراگراف پڑھیں گے، اس کے بعد عرفان قادر نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدارا یہ مت سمجھیے کہ یہاں لڑنے کے لیے آئے ہیں، جناب ناراض ہوگئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیس کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے جب کہا کہ پنجاب کے 12 کروڑ عوام کا معاملہ ہے اور حکومت فل کورٹ کا مطالبہ کررہی ہے۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم پانچ ججز نے وزیراعظم کو گھر بھیجا ہوا ہے۔
طویل سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ(ن) کے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ آخر وقت تک عدالت میں موجود رہے جبکہ پی ٹی آئی کے فواد چوہدری، اسد عمر اور فرخ حبیب کمرہ عدالت میں فیصلہ سننے تک بیٹھے رہے۔
سماعت کے آغاز سے پہلے سپریم کورٹ کے دروازوں پر اس وقت ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی جب عدالت کے ایک جج کی طرف سے مشروط داخلہ کی اجازت کا کہا گیا جس کے بعد پولیس اور رینجرز نے ڈیوٹی سنبھال کر وکلا اور میڈیا اور تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو روک دیا۔
SEE ALSO: سیاسی تنازعات اور عدلیہ کا کردار: ’سپریم کورٹ تنی ہوئی رسی پر چل رہی ہے‘اس صورت حال میں سپریم کورٹ کے احاطہ میں داخل ہونے والے وکلا نے شدید اجتجاج کیا اور کئی بار پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی تک کی نوبت آگئی۔
اس دوران اسلام آباد میں ہونے والی شدید بارش کی وجہ بھی میڈیا اور وکلا کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ عدالت سے باہر کہیں کوئی ایسی جگہ نہ تھی کہ بارش سے بچا جاسکے۔
رات ساڑھے نو بجے کے قریب فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد تمام سیاسی قائدین روانہ ہونے لگے تو پاکستان تحریک انصاف کے تمام رہنما خاصے خوش نظر آرہے تھے ، بعض رہنماؤں نے پنجاب میں وزیراعلیٰ پرویز الہی کے بننے کے متوقع فیصلہ پر مبارکباد بھی وصول کی۔ تاہم حکومتی اتحاد کے بیشتر رہنما بات چیت کیے بغیر روانہ ہوئے کہ تفصیلی گفتگو بعد میں کی جائے گی۔