تحقیقاتی ٹیم کو مقررہ وقت پر کام مکمل کرنے کی ہدایت

عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کے غیر ملکی اثاثوں کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے کہا ہے کہ وہ اپنا کام مقررہ 60 روز میں مکمل کرے اور اس کے لیے مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔

بدھ کو ٹیم نے اپنی اب تک کی کارگزاری سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیشں کی اور اطلاعات کے مطابق، ٹیم کے سربراہ نے تحقیقات سے متعلق درپیش مسائل کا تذکرہ کیا جس پر بینچ نے انھیں ان مسائل اور رکاوٹوں پر مبنی ایک تحریری درخواست علیحدہ سے جمع کروانے کا کہا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے آٹھ مئی کو اپنا کام شروع کیا تھا اور یہ ہر 15 روز کے بعد اپنی کارکردگی کی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کرتی ہے۔

تحقیقاتی عمل کے دوران وزیر اعظم کے بڑے بیٹے حسین نواز کی افشا ہونے والی ایک تصویر سے متعلق بھی عدالتِ عظمیٰ نے تحقیقاتی ٹیم سے جواب طلب کیا۔

بدھ کو ہی حسین نواز نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس تصویر کو افشا کرکے انھیں تضحیک کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہذا، عدالتِ عظمیٰ ایک سابق یا حاضر سروس جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کرکے تصویر افشا ہونے کے حالات اور اسے افشا کرنے والوں کا تعین کرے۔

حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے ایک بار پھر اپنے اس مطالبے کو دہرایا ہے کہ جب تک تحقیقاتی ٹیم اپنا کام مکمل نہیں کر لیتی وزیر اعظم کو عہدے سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔

تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین نے الزام عائد کیا کہ حکومت تحقیقاتی ٹیم کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرکے اس عمل کو طول دینا چاہتی ہے۔

صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "جے آئی ٹی نے کھل کر کہا ہے کہ ہماری تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔۔۔وزیراعظم کو فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے جب تک تحقیقاتی رپورٹ نہیں آتی۔"

عدالت عظمیٰ کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے قانون ساز دانیال عزیز نے ایک بار پھر حزب مخالف کے ان الزامات کو مسترد کیا کہ حکومت تحقیقاتی ٹیم کے کام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے نام پر شریف خاندان کو تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا جس کے خلاف بھی وہ عدالت سے رجوع کریں گے۔

"ضابطہ اخلاق سے بالا تر ہو کر چیزیں ہو رہی ہیں وہ بند ہونی چاہیئں، یہاں پر ہمیں قانون کی بالادستی چاہیے؛ یہاں پر ہمیں تذلیل کرنے کا اڈہ ہم تسلیم نہیں کرتے۔"

حکمران جماعت کا استدلال ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان پر اعتراضات کے باوجود شریف خاندان نے خود کو قانون اور آئین کے مطابق تحقیقات کے لیے پیش کیا ہے اور وہ ہر ممکن حد تک اس عمل میں تعاون کے عزم پر قائم ہیں۔