پاکستان کی عدالت عظمٰی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صوبہ پنجاب، سندھ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اسی سال بلدیاتی انتخابات کروانے کی ہدایت کی ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق ایک سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ کمیشن کو ہدایت کرتا ہے کہ صوبہ سندھ اور پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات رواں سال 20 ستمبر کو کروائے جائیں۔
اسلام آباد میں یہ انتخابات 25 جولائی کو کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی سپریم کورٹ نے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات 30 مئی کو جب کہ 43 کنٹونمنٹ بورڈز میں یہ انتخابات 25 اپریل کو منعقد کروانے کے شیڈول کو منظور کر لیا تھا۔
سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے جسے آئین پاکستان خودمختار بناتا ہے، لہذا اسے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر سے آئین اور عوام کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ اگر بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے پرنٹنگ کارپوریشن کو دو نئی مشینیں فراہم کر دی جائیں تو وہ پنجاب اور سندھ میں 20 ستمبر کو بلدیاتی انتخاب کروا سکتا ہے۔
پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے اور تاحال صرف اسی خطے میں مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں آسکا ہے۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈز میں گزشتہ 17 سالوں جب کہ بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں میں نو اور وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ پانچ سالوں میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عوام کے مسائل کے دیرپا حل اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے مقامی حکومتوں کا ہونا از حد ضروری ہے۔ لیکن ان کی عدم موجودگی سیاسی عزم کی کمی اور صوبائی حکومتوں کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔
سماجی ترقی کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "سنگت" کے عہدیدار زاہد اسلم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد اب صوبوں کے پاس اس ضمن میں مزید کوئی حجت باقی نہیں رہتی اور انھیں یہ انتخابات کروانے کے لیے الیکشن کمیشن سے تعاون کرنا ہوگا۔
"یہ آئین میں کہا گیا ہے کہ انھیں (صوبائی حکومتوں کو) ہر قیمت پر بلدیاتی حکومتوں کو قائم کرنا ہے تو یہ خلاف ورزی کرتی آرہی تھیں اب انھوں (سپریم کورٹ) نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ یا تو پھر آئین کو پھاڑ دیں۔ اب یہ یا تو آئینی ترمیم کریں جو ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ ان کو مطلوبہ حمایت حاصل نہیں ہوگی تو میرا نہیں خیال اب زیادہ تاخیر ہوگی۔"
یہ سماعت اب غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔