دہشت گردی کے لیے مالی سرگرمیوں کے خلاف نئے اقدامات

پاکستان کے مرکزی بینک نے ملک میں تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو 30 جون تک اپنے ہاں کھاتوں کی چھان بین کرنے کی سختی سے ہدایت کی ہے تاکہ غیر سرکاری تنظیموں اور فلاحی اداروں کے اکاؤنٹس میں آنے والی رقوم کو دہشت گردی کے لیے مالیاتی سرگرمیوں اور منی لانڈرنگ یعنی رقوم کی بیرون ملک غیر قانونی ترسیل کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

’’غیر سرکاری تنظیموں یا غیر منافع بخش اداروں کے ساتھ (بینکوں کے) تعلقات پر نظر ثانی کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ یہ تنظیمیں اور اس سے منسلک افراد اور مستفید ہونے والے مالکان کے کالعدم تنظیموں یا افراد سے رابطے نا ہوں۔‘‘

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان وسیم الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نئے ہدایت نامے کے محرکات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیت مرکزی بینک ان کے ادارے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بینکوں کی سرگرمیوں اور اس کے کھاتے داروں کی رقوم کو کسی بھی طرح کے خطرات سے محفوظ بنایا جائے۔

’’ کوئی خاص وجہ تو میں نہیں بتا سکتا لیکن یہ کہ ہم نے ضرورت محسوس کی تو یہ ہدایات جاری کیں۔‘‘

پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے دہشت گردی کے لیے مالیاتی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کے سلسلے میں غیر سرکاری تنظیموں اور فلاحی اداروں کے بینک کھاتوں کی چھان بین کے احکامات کو معاشی ماہرین اور بینکار مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ’این جی اوز‘ کو ملنے والی رقوم کے شفاف استعمال کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔

ستمبر 2001ء میں امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد منی لانڈرنگ یعنی رقوم کی غیر قانونی طور پر بیرون ملک ترسیل اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے مالی معاونت کو روکنے کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک نے کئی اقدامات کیے تھے۔

لیکن وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور معاشی امور کے ماہر ثاقب شیرانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ بعض شعبوں میں اب بھی اصلاحات کی ضرورت تھی اور اسٹیٹ بینک کا نیا ہدایت نامہ بظاہر اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

’’یہ معاملہ اس لیے اجاگر ہوا کیوں کہ کچھ ایسے ادارے ہیں جن کو کالعدم قرار دیا گیا تھا ... انھوں نے نئے نام پر اپنا وجود قائم کیا ہے تو اس لیے اسٹیٹ بینک کو ضرورت پڑی ہے کہ بینکوں کو یہ ہدایت دی جائے‘‘۔

ثاقب شیرانی کے بقول فلاحی کام کرنے والی ’’حقیقی این جی اوز‘‘ پر ان اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ’’کیوں کہ وہ پہلے ہی سخت قوانین کے تحت کام کر رہی ہیں‘‘۔

اسیٹیٹ بینک نے ذاتی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے خیراتی، فلاحی کاموں کے لیے چندہ جمع کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے جب کہ غیر سرکاری تنظیموں کو اپنے اکاؤنٹس کھلوانے کے لیے رجسٹریشن کی تمام دستاویزات کے علاوہ مالیاتی گوشواروں کی تفصیلات سمیت دیگر ضروری سرکاری اجازت نامے فراہم کرنا ہوں گے۔

تمام بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ مشکوک اکاؤنٹس کی روک تھام کے لیے وہ اپنے عملے کو اسٹیٹ بینک کی طرف سے فراہم کردہ لائحہ عمل کی روشنی میں تربیت فراہم کریں۔