معروف امریکی رسالے 'فوربز' میگزین نے دنیا کے 100 سب سے زیادہ کمانے والے کھلاڑیوں کی فہرست شائع کی ہے جس میں کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی جگہ نہیں بنا سکا ہے۔
فہرست میں شامل کھلاڑیوں کا تعلق 23 ملکوں اور 11 مختلف اسپورٹس سے ہے جنہوں نے گزشتہ 12 ماہ کے دوران مجموعی طور پر تین ارب 80 کروڑ ڈالر کمائے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فہرست میں کوئی ایک خاتون کھلاڑی بھی شامل نہیں۔
خواتین کھلاڑیوں کی اس فہرست میں عدم موجودگی نے ایک بار پھر مردوں اور خواتین کے مشاہروں میں فرق کے بارے میں جاری عالمی بحث کو تیز کردیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان اور میڈیا منیجر رضا راشد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردی نے پاکستان میں کھیل کے میدانوں کو بہت ویران کیا ہے جس کے باعث کوئی بھی عالمی ٹیم پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
رضا راشد کے بقول پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) خواتین اور مرد کھلاڑیوں کو سینٹرل کانٹریکٹ کے تحت ماہانہ اچھے مشاہرے ادا کرتا ہے لیکن زیادہ اسپانسرز نہ ملنے کے باعث پاکستانی کھلاڑی سالانہ زیادہ پیسے نہیں کما سکتے۔
ان کے بقول، "پی سی بی کے پاس صرف ایک اسپانسر، مشروبات بنانے والی کمپنی پیپسی ہے۔ اس کے بھی پاکستان میں ریٹ کم اور پڑوسی ملک بھارت میں زیادہ ہیں۔ اسی طرح بھارت اور دیگر ملکوں میں میچ فیس بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے کھلاڑی پاکستانی کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ پیسے کماتے ہیں۔"
رضا راشد نے بتایا کہ کرکٹرز کو معاوضے دینے کے حساب سے آسٹریلیا پہلے نمبر پر، انڈیا دوسرے نمبر پر، انگلینڈ تیسرے نمبر پر اور جنوبی افریقہ چوتھے نمبر پر ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے خواتین کھلاڑیوں کو ماہانہ مشاہرے کے حساب سے چار درجہ بندیوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ پہلی کیٹیگری میں پاکستانی ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان بسمیٰ معروف، نین عابدی، ندا راشد اور ثناء میر شامل ہیں جنہیں ماہانہ 960 امریکہ ڈالر ملتے ہیں۔
دوسری کیٹیگری میں جویریہ بتول، جویریہ رؤف، ناہیدہ بی بی اور کائنات امتیاز شامل ہیں جنہیں 810 ڈالر ماہانہ مشاہرہ ملتا ہے۔
تیسری کیٹیگری میں نشاء سندھو، انعم امین اور دیا بٹ شامل ہیں جنہیں پی سی بی کی جانب سے 620 ڈالر ماہانہ جبکہ چوتھی کیٹیگری میں عمیمہ سہیل، نتالیہ پرویز، فریحہ محبوب، رامین شہزاد، فریحہ اخلاق اور عالیہ ریاض شامل ہیں جنہیں 300 امریکی ڈالر ماہانہ دیے جاتے ہیں۔
پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی ایک سینئر کھلاڑی نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کے معاوضے حال ہی میں بڑھائے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے بقول ان کا مشاہرہ مرد کھلاڑیوں کی نسبتاً کم ہے۔
خاتون کرکٹر کے بقول، "میں نے اور دیگر خواتین کھلاڑیوں نے کئی مرتبہ پی سی بی سے ماہانہ معاوضہ بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ابھی بات چیت چل رہی ہے۔ امید ہے کہ پی سی بھی اس طرف دھیان دے گا۔"
پاکستان کرکٹ بورڈ مرد کھلاڑیوں کو بھی چار درجہ بندیوں میں تقیسم کر کے معاوضہ دیتا ہے۔ مرد کھلاڑیوں کو 24 ہزار امریکی ڈالر سے 70 ہزار امریکی ڈالر تک سالانہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ انضام الحق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹ پاکستان میں سب سے زیادہ کھیلا جانے والا اور پسند کیا جانے والا کھیل ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں کھلاڑیوں کا معاوضہ دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کی نسبت کم ہے اور وہ کئی بار حکام کو کھلاڑیوں کا معاوضہ بڑھانے کا کہہ چکے ہیں۔
پاکستان میں ہاکی کے کھلاڑیوں بھی اپنے معاوضے کے حوالے سے مطمئن نہیں۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ترجمان اعجاز چوہدری نے نیدر لینڈز سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے وائس امریکہ کو بتایا کہ کسی بھی لیگ کے دوران تمام کھلاڑیوں کو 150 امریکی ڈالر روزانہ کے حساب سے دیے جاتے ہیں۔
ان کے بقول "چار سال پہلے ہم نے بھی ہاکی کھیلنے والے کھلاڑیوں کا اچھے معاوضے دینے کے لیے منصوبہ بندی کی تھی۔ لیکن فنانشل کرائسز اور اسپانسرز کی کمی کے باعث وہ منصوبہ ختم کرنا پڑا۔"
حال ہی می پاکستان میں ہونے والی پہلی سپر کبڈی لیگ میں بھی شریک کھلاڑیوں کو پرکشش معاوضے نہیں دیے گئے تھے۔
سپر کبڈی لیگ کے چیئرمین حیدر علی داؤد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ روایتی کھیل ہونے کے باجود انہیں کبڈی کے کھلاڑیوں کے لیے اسپانسرز نہیں مل سکے جس کے باعث وہ کھلاڑیوں کو محض 60 ہزار روپے فی میچ ہی دے سکے۔
سنہ 2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد عالمی کھیلوں کے دروازے پاکستان کے لیے بند ہو چکے ہیں اور اب کوئی بھی غیر ملکی ٹیم بآسانی پاکستان آنے کو تیار نہیں ہوتی۔
اگر کوئی ٹیم پاکستان آنے پر رضا مند ہو بھی جائے تو وہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاوہ کہیں اور میچ کھیلنے کے لیے تیار نہِیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ ون اور پاکستان سپر لیگ ٹو کے میچز قذافی اسٹیڈیم لاہور میں منعقد کرائے گئے۔
ان میچوں میں پی ایس ایل انتظامیہ نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان میں کھیلنے کے لیے منہ مانگی رقم دی۔
کھلاڑی سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان میں سکیورٹی کی صورتِ حال مزید بہتر نہیں ہو جاتی، پاکستان میں کھیلوں کے میدان آباد نہیں ہو سکیں گے اور کھیلوں کے میدان آباد ہونے پر ہی ان کے معاوضوں میں بہتری کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔