وفاقی حکومت نے جمعرات کو خصوصی عدالت میں درخواست جمع کراتے ہوئے استدعا کی تھی کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے ملک کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے شق چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کر لیا ہے۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں بننے والی تین رکنی خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو کے مطابق وزارت داخلہ کی طرف سے سابق فوجی صدر کے خلاف جمع کرائی گئی چارج شیٹ کا جائزہ لینے کے بعد حکومت کی درخواست جمعہ کو سماعت کے لیے منظور کی گئی۔
وفاقی حکومت نے جمعرات کو خصوصی عدالت میں درخواست جمع کراتے ہوئے استدعا کی تھی کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست کے ساتھ اس مقدمے سے متعلق گواہان کی فہرست اور دیگر ضروری دستاویزات بھی شامل تھیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ سابق فوجی صدر نے نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا تھا اور اُن کا یہ اقدام آئین کی شق چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
پرویز مشرف کی قانونی مشیر اس الزام کی مسلسل نفی کرتے آئے ہیں اور بعض قانونی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر نے اُس وقت کے وزیراعظم اور اعلیٰ عسکری عہدیداروں کے علاوہ دیگر متعلقہ افراد سے مشاورت کے بعد 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کی تھی اس لیے صرف پرویز مشرف کے خلاف ہی کارروائی کرنا درست نہیں۔
سابق وفاقی وزیر قانون اور سینیئر وکیل خالد رانجھا نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس میں جو مدعی ہے وہ عام آدمی نہیں بلکہ وہ حکومت پاکستان ہے جو کہ لیگل پرسن ہے اور وہ قانون کے منافی کام نہیں کر سکتی۔ تین قسم کے لوگ ہیں جو مرتکب ہوں گے آئین توڑنے کے، نمبر ایک وہ جو توڑتے ہیں، نمبر دو وہ جو اُن کی معاونت کرتے ہیں اور نمبر تین وہ جو اس میں صلاح و مشورہ ہوتا ہے۔‘‘
پرویز مشرف کی جماعت کے بعض رہنماؤں کی جانب سے خصوصی عدالت سے متعلق بظاہر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن باضابطہ طور پر تاحال اعتراضات جمع نہیں کرائے گئے۔
بعض قانونی ماہرین اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کا آغاز 1999ء میں اُن کی طرف سے بطور فوج کے سربراہ کے نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے اقدام سے ہونا چاہیئے۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے 1999 میں پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف کی حکومت برطرف کرنے کے اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے سابق فوجی صدر کو آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دے دی تھی۔
پرویز مشرف کو ان کے خلاف زیرِا لتوا تمام چار مقدمات میں ضمانت منظور ہونے کے بعد گزشتہ ماہ رہا کر دیا گیا تھا۔ سابق فوجی صدر کو رواں سال اپریل سے وفاقی دارالحکومت میں واقع اُن کے فارم ہاؤس میں قید رکھا گیا اور وہ اب بھی وہیں مقیم ہیں۔
پرویز مشرف کا نام اب بھی 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' میں شامل ہے جس کے باعث وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں بننے والی تین رکنی خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو کے مطابق وزارت داخلہ کی طرف سے سابق فوجی صدر کے خلاف جمع کرائی گئی چارج شیٹ کا جائزہ لینے کے بعد حکومت کی درخواست جمعہ کو سماعت کے لیے منظور کی گئی۔
وفاقی حکومت نے جمعرات کو خصوصی عدالت میں درخواست جمع کراتے ہوئے استدعا کی تھی کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست کے ساتھ اس مقدمے سے متعلق گواہان کی فہرست اور دیگر ضروری دستاویزات بھی شامل تھیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ سابق فوجی صدر نے نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا تھا اور اُن کا یہ اقدام آئین کی شق چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
پرویز مشرف کی قانونی مشیر اس الزام کی مسلسل نفی کرتے آئے ہیں اور بعض قانونی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر نے اُس وقت کے وزیراعظم اور اعلیٰ عسکری عہدیداروں کے علاوہ دیگر متعلقہ افراد سے مشاورت کے بعد 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کی تھی اس لیے صرف پرویز مشرف کے خلاف ہی کارروائی کرنا درست نہیں۔
سابق وفاقی وزیر قانون اور سینیئر وکیل خالد رانجھا نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس میں جو مدعی ہے وہ عام آدمی نہیں بلکہ وہ حکومت پاکستان ہے جو کہ لیگل پرسن ہے اور وہ قانون کے منافی کام نہیں کر سکتی۔ تین قسم کے لوگ ہیں جو مرتکب ہوں گے آئین توڑنے کے، نمبر ایک وہ جو توڑتے ہیں، نمبر دو وہ جو اُن کی معاونت کرتے ہیں اور نمبر تین وہ جو اس میں صلاح و مشورہ ہوتا ہے۔‘‘
پرویز مشرف کی جماعت کے بعض رہنماؤں کی جانب سے خصوصی عدالت سے متعلق بظاہر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن باضابطہ طور پر تاحال اعتراضات جمع نہیں کرائے گئے۔
بعض قانونی ماہرین اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کا آغاز 1999ء میں اُن کی طرف سے بطور فوج کے سربراہ کے نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے اقدام سے ہونا چاہیئے۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے 1999 میں پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف کی حکومت برطرف کرنے کے اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے سابق فوجی صدر کو آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دے دی تھی۔
پرویز مشرف کو ان کے خلاف زیرِا لتوا تمام چار مقدمات میں ضمانت منظور ہونے کے بعد گزشتہ ماہ رہا کر دیا گیا تھا۔ سابق فوجی صدر کو رواں سال اپریل سے وفاقی دارالحکومت میں واقع اُن کے فارم ہاؤس میں قید رکھا گیا اور وہ اب بھی وہیں مقیم ہیں۔
پرویز مشرف کا نام اب بھی 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' میں شامل ہے جس کے باعث وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔