پاکستان میں 19 سال کے تعطل کے بعد بالآخر مردم و خانہ شماری کے عمل کا آغاز رواں ہفتے ہو چکا ہے لیکن آئے روز اس حوالے سے کسی نہ کسی حلقے سے تحفظات اور شکایات بھی سامنے آ رہی ہیں۔
ملک میں آباد سکھ برادری کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے فارم میں ان کے لیے مذہب کا علیحدہ خانہ نہ رکھے جانے پر انھیں افسوس ہے۔
شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخواہ میں مقیم سکھ برادری نے حالیہ دنوں میں مختلف علاقوں میں اس بارے میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے جب کہ ان کی طرف سے اسلام آباد میں ایک مظاہرے کا بھی ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق سکھ برادری کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ سکھ مت دنیا بھر میں ایک تسلیم شدہ مذہب ہے اور اس کے پیروکاروں کی ایک قابل ذکر تعداد نہ صرف پاکستان میں آباد ہے بلکہ اس مذہب کا آغاز بھی اسی خطے سے ہوا تھا۔
ان کے بقول ایسے میں مردم شماری کے فارم میں اس مذہب کے لیے علیحدہ خانہ نہ رکھا جانا قابل افسوس ہے۔
مردم شماری کے فارم میں مذہب کے خانے میں مسلم، عیسائی، ہندو، احمدی، شیڈولڈ کاسٹ اور دیگر کے الفاظ درج ہیں۔
پنجاب میں بھی سکھوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور یہاں حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی رامیش سنگھ اروڑا نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایسے ہی تحفظات کا اظہار کیا۔
"اگر آپ دیگر میں اس کا اندراج کریں گے تو پھر جب یہ معلوم کرنا ہوگا کہ سکھوں کی تعداد کتنی ہے اور وہ کہاں کہاں آباد ہیں تو یہ بہت مشکل ہو جائے گا کیونکہ دیگر میں تو اور بھی بہت سے مذہب کا اندراج کیا جا رہا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ان تحفظات سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا ہے جنہوں نے اس شکایت کے مناسب ازالے کے لیے اقدام کرنے کی یقینی دہانی کروائی ہے۔
اس سے قبل خواجہ سراؤں کی طرف سے بھی ایسے ہی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ان کے لیے جنس کے خانے میں علیحدہ خانہ نہیں رکھا گیا جب کہ معذور افراد کو شکایت تھی کہ ان کی حیثیت سے متعلق بھی مردم شماری فارم میں وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
اس پر مردم شماری کے چیف کمشنر آصف باجوہ نے جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ایسی تمام شکایات کو دور کرنے کے لیے اقدام کیے جا رہے ہیں اور عملے کو بھی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔