پاکستان ان دنوں تباہ کن سیلاب کے باعث افسردہ اور کسی حد تک مایوس کن صورت حال میں گھرا ہوا ہے لیکن اس دوران صوبہ پنجاب میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے عوام پر حالیہ قدرتی آفت سے کہیں زیادہ دہشت طاری کر دی ہے۔
معیاری آلات جراحی اور کھیلوں کے سامان کی تیاری کے سلسلے میں عالمگیر شہرت رکھنے والے شہر سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں بٹر میں 15 اگست کو چندافراد نے دو نو عمر بھائیوں کو بھرے مجمعے اور پولیس کی موجودگی میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا۔
18سالہ حافظ مغیث اور 15 سالہ منیب کی نیم برہنہ لاشوں کو نہ صرف شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر گھسیٹاگیا بلکہ ایک مقام پر انھیں تاروں سے اْلٹا لٹکا دیا گیا۔ یہ تمام کارروائی بیسیوں افراد نے دیکھی جن میں بوڑھے، جوان اور بچے سب ہی شامل تھے۔
بظاہر کسی” تماشائی “ نے اس بے رحمانہ تشددکی ویڈیو فلم بنا نے کے بعد ٹی وی چینلز کو فراہم کردی جو پچھلے کئی روز سے بار بار نشر کی جارہی ہے۔ فلم کے مناظر میں حملہ آوروں اور جائے وقوعہ پر موجود پولیس حکام کے چہرے واضح طور پر نظر آئے لیکن بظاہر کسی مرحلے پر محسوس نہیں ہوا کہ کسی کے دل میں رحم آیا ہواور اس سفاکانہ عمل کو روکنے کی کوشش کی ہو ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ خون ریز جرائم اور دہشت گردانہ حملوں کے باعث انسانی جان کی بدستور گھٹتی ہوئی اہمیت سماجی مسائل کا مطالعہ کرنے والے ماہرین اور سوچ سمجھ رکھنے والے ہر شخص کے لیے لمحہ فکریہ ہے اوریہ حالیہ واقعہ پاکستانی معاشرے میں ”بڑھتی ہوئی بے حسی “کی عکاسی کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ایچ آر سی پی کے چیئر مین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ ”پچھلے چند برسوں سے ہم جس قسم کی دہشت گردی میں مبتلا ہیں اس کی وجہ سے انسانی زندگی بے وقعت ہو کر رہ گئی ہے اور موت بہت سستی نظر آنے لگی ہے“۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں گذشتہ سالوں میں لاقانونیت کئی گنا بڑھی ہے اور سب سے زیادہ اضافہ راہ چلتے کیے جانے والے جرائم میں ہوا ہے جب کہ لوگ ان وارداتوں کا شکار ہو کر یا ان کے بارے میں سن کر اس حد تک تنگ آچکے ہیں کہ اگر ملزمان کو سزا دینے کی بات کی جائے تو ایک بڑی تعداد میں لوگوں کا فوری ردعمل عموماً انہی الفاظ کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ ”ان کو ختم کر دینا چاہیئے“۔
شاید اسی صورتحال کا فائدہ سیالکوٹ کے رہائشی سگے بھائیوں کے قاتلوں نے بھی اٹھایا اور ان دونوں نوجوانوں پر ڈکیتی کا الزام لگا کر سرعام ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا ۔کسی شخص نے اس کارروائی کی مزاحمت کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ یاتو مجموعی طور پر ڈاکووٴں کے خلاف غصہ یا ممکنہ طور پر خود اس تشدد کا نشانہ بن جانے کا خوف تھا۔ سرکاری عہدے داروں اور پولیس کا کہنا ہے کہ مغیث اور منیب کے کسی جرم میں ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید مکمل تفتیش کے بعد ہی ممکن ہے البتہ بعض حکام اور اہل محلہ کی اکثریت کے مطابق دونوں نوجوان بے قصور تھے۔
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس واقعہ کا ازخود نوٹس لیا اور ان کے حکم پر سابق جج کاظم ملک اس سانحہ کی تفتیش کر رہے ہیں ۔ کاظم ملک رواں ماہ کے اواخر تک اپنی رپورٹ پیش کریں گے جب کہ عدالت عظمیٰ میں اس واقعہ کے حوالے سے اگلی کارروائی یکم ستمبر کو ہو گی۔
پولیس نے اس دوہرے قتل کے الزام میں درجن سے زائد پولیس اہلکاروں سمیت 30 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر رکھا ہے جب کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے مطابق دس افراد اور چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تاہم سیالکوٹ پولیس کے سربراہ وقار چوہان، جو خود جائے وقوعہ پر موجود تھے، کو آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی لگادیا گیا ہے جب کہ ایک مرکزی ملزم اور تھانہ سیالکوٹ کے اس وقت کے ایس ایچ او رانا الیاس علاقے کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کے دفتر سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور تاحال مفرور ہیں۔
وزیر داخلہ رحمان ملک نے اتوار کو مقتولین کے والدین سے ان کے گھر پر ملاقات کی جہاں میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ بعض افراد کے ملک سے باہر بھاگ جانے کا خطرہ ہے جس کے پیش نظر ان کے نام اْن افراد کی فہرست میں شامل کیے جا رہے ہیں جن کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں۔
پولیس حکام کی اس تمام واقعہ میں مجرمانہ غفلت سے ان کے کردار کے حوالے سے عوام میں کئی قسم کے تحفظات پائے جا رہے ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔
صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اتوار کے روز اس دوہرے قتل کی تحقیقات ایک ہفتے کے اندر مکمل کرنے کا عزم ظاہر کیا اور بتایا کہ وہ اس عمل کی خود نگرانی کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ تفتیش کے دوران اس بات کا بھی تعین کیا جائے گا کہ آیا مشتبہ پولیس اہلکار خود فرار ہوئے ہیں یا ان کو دانستہ طور پر فرار کرایا گیا ہے۔