سیاچن پر برفانی تودے کی لپیٹ میں آنے والے پاکستان کے ایک فوجی اڈے پر تعینات 135 افراد کی تلاش کا کام اتوارکو دوسرے روز بھی جاری رہا مگر تاحال حکام نے تقریباً 80 فٹ گہری اور ایک مربع کلومیٹر پر پھیلی برف کے نیچے سے کسی کو زندہ یا مردہ نکالنے کی اطلاع نہیں دی ہے۔
سینکڑوں پاکستانی فوجی بھاری مشینری اور کھوج لگانے والے کتوں کی مدد سے امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی اتوار کو متاثرہ علاقے کا دورہ کرکے وہاں جاری امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔
امریکہ نے برفانی تودے تلے دب جانے والے پاکستانی فوجیوں کی سلامتی کے بارے میں ’’گہری تشویش‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی عوام ان افراد کے اہل خانہ کے لیے ’’دعاگو‘‘ ہیں۔
امریکی سفارت خانے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ فوجیوں کی تلاش، انہیں نکالنے اور ان کی جانیں بچانے کے لیے امدادی عمل میں پاکستان کی مدد کے لیے تیار کھڑا ہے۔
’’اس سانحہ کے حوالے سے پاکستان کو اگر کسی قسم کی مدد درکار ہے تو ہم ہمہ وقت تیار ہیں۔‘‘
تودہ گرنے کا یہ حادثہ اُس وقت پیش آیا جب ہفتہ کی صُبح چھ بجے سکردو کے قریب گیاری سیکٹر میں پچھلے 20 سال سے قائم پاکستانی فوج کے بٹالین ہیڈکوارٹرز سےایک بہت بڑا برفانی تودہ جا ٹکرایا۔
بھارتی سرحد کے قریب اس فوجی تنصیب پر پاکستانی حکام کے بقول تعینات 124 اہلکار اور وزارتِ دفاع کے 11 ملازمین موجود تھے جو بشمول بٹالین ہیڈکوارٹرز کے کمانڈر لیفٹنیٹ کرنل تنویر الحسن کے سب کے سب برف تلے دب گئے۔
پاکستانی فوج نے ہوائی جہازوں کے ذریعے راولپنڈی سے بھاری مشینری جائے حادثہ پر منتقل کرنے کے بعد فوری طور پر بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیاں شروع کردی تھیں لیکن ایک روز گزرنے کے بعد بھی ان میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکی۔
سکستھ ناردرن لائٹ انفنٹری کا بٹالین ہیڈکوارٹرز دو پہاڑوں کے درمیان 15 ہزار فٹ کی بلند پر ایک وادی میں قائم ہے اور سیاچن پر اگلے محاذوں کو کمک و رسد بھیجنے کے لیے ایک مرکزی گزرگاہ ہے۔ اس کے قریب ہی پاکستانی فوج کا ایک اسپتال بھی موجود ہے۔
دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچن گلیشئر کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے شمالی سرے پر واقع ہے اور اس کی لمبائی 78 کلومیٹر ہے۔ بھارت نے 1984ء میں اس پر فوج کشی کرتے ہوئے اپنا قبضہ قائم کر لیا تھا، اور اُسے مزید پیش قدمی سے روکنے کے لیے پاکستان نے بھی اپنی فوجی چوکیاں قائم کرلیں۔
دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی گلیشئر پر 22 ہزار فٹ کی بلندی پر تعینات ہیں جہاں درجہ حرارت 70 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوتا ہے۔ خراب موسم، تیز برفانی آندھیوں اور برفانی تودوں کے گرنے کے باعث فوجیوں کا مہینوں آپس میں رابطہ نہیں ہو پاتا۔ بھارت اور پاکستان دونوں ہی گلیشئر پر اپنی فوجوں کی تعیناتی پر ہر سال اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔
فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ 1984ء سے آج تک سیاچن پر بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں میں جتنے فوجی ہلاک ہوئے اُس سے کئی گنا زیادہ تعداد ان کی ہے جو وہاں موسم کی سفاکی کا شکار ہو چکے ہیں اور ہفتے کو پیش آنے والا حادثہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔