مذہبی جماعتوں کے فیض آباد میں تین ہفتوں تک جاری رہنے والے دھرنے سے متعلق مقدمے کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر کو ہونے والی سماعت میں بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے سخت ریمارکس سامنے آئے جنہوں نے ایک بار پھر دھرنا قائدین اور حکومت کے مابین معاہدے میں فوج کے سربراہ کا نام استعمال کیے جانے پر سوال اٹھایا۔
دھرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے رکھا ہے جب کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس بابت ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔
اس ضمن میں عدالتی کارروائیوں اور ججز کے ریمارکس پر سیاسی و سماجی اور قانونی حلقوں کی طرف سے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے جس میں عدلیہ کے کردار کی تعریف اور حکومت پر تنقید کا پہلو نمایاں ہے جب کہ بعض حلقے سیاسی معاملات میں فوج کے کردار پر سوال اٹھائے جانے کو مناسب قرار دیتے ہیں۔
لیکن سینیئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کے خیال میں جب تک معاملات کو قانون کے مطابق حل کرنے پر توجہ نہیں دی جائے گی اس وقت تک ایک ادارے کی دوسرے کے کام میں مداخلت نظر آتی رہی ہے گی جو ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دھرنے پر تین مختلف عدالتوں کی طرف سے سامنے آنے والے ریمارکس اپنی جگہ ایک اور عجیب صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
"یہ معاملہ حکومت کے ڈیل کرنے کا تھا یہ عدالتوں کے ڈیل کرنے کا معاملہ نہیں تھا مگر ایک نیا رواج بن گیا ہے کہ عدالتیں اس طرح کے معاملات کو ڈیل کر رہی ہیں پھر ایک بڑی عجیب سی بات آپ نے دیکھی ہوگی کہ اس دھرنے کے معاملے پر تین مختلف عدالتوں کے تین مختلف طرح کے ریمارکس آ رہے تھے۔۔۔جب تک اپ معاملات کو قانون کے مطابق ڈیل کرنا نہیں سیکھیں گے اس وقت تک یہ مسائل اسی طرح چلتے رہیں گے۔"
سپریم کورٹ اور اسلام آبائی ہائی کورٹ نے احتجاج کے اس طریقے اور اس سے نمٹنے کے لیے آپریشن کی ناکامی کے بعد فوج کی ثالثی میں معاہدہ کیے جانے پر سخت ریمارکس دیے جب کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے اپنے ریمارکس میں فوج کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ "فوج نے ملک کو تباہی سے بچا لیا۔"
کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ وہ عدلیہ سے بھی استدعا کریں گے کہ وہ اپنے دستوری دائرے میں رہنے کو ترجیح دے۔
"عدلیہ سے استدعا ہے کہ جو قانون نے دستور نے کہا ہے آپ اسی دائرے میں چلیے زیادہ متحرک کردار عدلیہ کو بدنام کرتا ہے عدلیہ کو خراب کرتا ہے وہ جلسوں میں ڈسکس ہوتے ہیں ان کے بارے میں میڈیا میں باتیں کی جاتی ہیں تو یہ ان کی اپنی عزت کے لیے مناسب نہیں ہوتا۔"
ان کے نزدیک ایسے معاملات ملک میں خراب طرز حکمرانی سے پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عدالتیں اپنے کام کی بجائے اس طرح کے معاملات سے نمٹنے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔