پاکستان کے ایوانِ بالا میں اکثریت رکھنے کے باوجود چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گئی ہے۔ تجزیہ کار اور صحافی اسے اپوزیشن قیادت کی مایوس کن کارکردگی اور غیر متوقع صورت حال قرار دے رہے ہیں۔
اپوزیشن قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی فیصلے کے برخلاف ووٹ دینے والے 14 سینیٹروں کو بے نقاب کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ جمعرات کو ہونے والے خصوصی اجلاس میں مشترکہ اپوزیشن کے 64 اراکین موجود تھے، جن میں سے صرف 50 سینٹرز نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے حق میں ووٹ ڈالا۔
خفیہ رائے شماری کے ذریعے صادق سنجرانی کو 45 ووٹ حاصل ہوئے، جن میں حکومتی اتحاد کے 36 سینٹرز کے اپوزیشن کے 9 اراکین کے ووٹ بھی شامل تھے جبکہ پانچ ووٹ مسترد کیے گئے۔
متحدہ مجلس عمل کے اتحاد کے ساتھ عام انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت اسلامی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اور مسلم لیگ ن کے دو سینٹرز کے بیرون ملک ہونے کے باعث 104 کے ایوان میں سے 100 سینٹرز نے خفیہ رائے دہی کے ذریعے حصہ لیا۔
اپوزیشن کی حکومت کے خلاف اپنے پہلے مشترکہ اقدام کی ناکامی پر شہباز شریف اور بلاول بھٹو مایوس دکھائی دیے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تو اپنی جماعت کے تمام سینٹرز کی جانب سے استعفے موصول ہونے کا بتایا تو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اس صورت حال پر آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے آئندہ ہفتے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا۔
ایوان بالا میں اکثریت رکھنے کے باوجود اپوزیشن کی اس تحریک کی ناکامی کو سیاسی تجزیہ کار اور صحافی اپوزیشن قیادت کے لیے بڑا صدمہ قرار دے رہے ہیں۔
ادھر، سینیٹر میر حاصل بزنجو کے بیان کے حوالے سے، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ''معمولی سیاسی فائدے کے لیے سارے سیاسی نظام کی بے توقیری کرنے کا طرز عمل جمہوریت کی خدمت نہیں ہے''۔
اپنے ٹوئٹ میں، سینیٹر حاصل بزنجو نے سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ناکام ہونے سے متعلق الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ''یہ بے مثال نوعیت کی ہارس ٹریڈنگ ہے، جس سے سب کو نقصان پہنچا، چاہے کسی کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے ہو؛ ان سب کے لیے جو جمہوری جدوجہد میں یقین رکھتے ہیں''۔
انھوں نے مزید کہا کہ ''آج کا دن پاکستان کی جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، جو ہمیشہ ہم سب کا پیچھا کرتا رہے گا''۔
اپوزیشن قیادت کی گرفتاریوں اور حکومت کی جانب سے روا رکھے جانے والے رویے کے جواب میں مشترکہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔
مشترکہ اپوزیشن کو شکوہ ہے کہ حکومت ملکی معاملات اور پارلیمان میں انہیں یکسر نظر انداز کر رہی ہے، جس پر سخت ردعمل دینے کے لیے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی تحریک پیش کی گئی۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اپوزیشن کی حکومت مخالف حکمت عملی کا پہلا قدم تھا جس میں انہیں باوجود واضع عددی اکثریت کے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سینیٹ میں اپنی تحریک کی ناکامی پر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور دیگر اپوزیشن قیادت کے ساتھ مشاورت کی اور اہم فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ضمیر فروشی کرنے والے ارکان کی نشاندہی کی جائے گی۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حزب اختلاف کی قیادت کے فیصلے کے مطابق، اپوزیشن قوم کو بتائے گی کہ یہ 14 ارکان کون تھے، جنہوں نے خفیہ رائے شماری کے وقت پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی اور نشاندہی کا یہ عمل ایک متعین ٹائم فریم کے اندر مکمل کیا جائے گا۔
اعلان میں کہا گیا ہے کہ اگلے ہفتے کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس میں اپوزیشن کی آج ہونے والی مشاورت میں جو آپشنز سامنے آئے ہیں، اے پی سی میں ان پر بات ہو گی اور قوم کے سامنے آئندہ کا لائحہ عمل پیش کیا جائے گا۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے مطابق، اپوزیشن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سینیٹ کے ہر اجلاس میں ہارس ٹریڈنگ کے خلاف پوری قوت سے آواز اٹھائی جائے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ان افراد نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے‘‘، اور یہ کہ ’’اپوزیشن کے یہ 14 ارکان امیر ترین لوگوں کی چمک کا شکار ہوئے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ایوان میں تحریک عدم اعتماد پیش کرتے وقت 64 ارکان نے کھڑے ہو کر اس کی تائید کی تھی جس کا مطلب حکومت کی شکست تھی۔
بقول ان کے ’’سلیکٹیڈ حکومت ایوان کے اندر ضمیر فروشی کر کے جیت گئی، لیکن عوام کی عدالت میں ہار گئی۔ گزشتہ سال انتخابات میں بھی سینیٹ انتخاب کی طرح ہی حکومت سلیکٹ ہوئی تھی۔ آج ایک بار پھر گزشتہ سال کے دھاندلی شدہ انتخابات کی تاریخ دہرائی گئی ہے‘‘۔
دوسری جانب، سینیٹ میں قائد ایوان اور تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز کا کہنا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ اپوزیشن کے چند سینیٹر بک گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ جو کچھ کرنے والے ہیں وہ ادارے کے وقار اور جمہوریت کے تسلسل کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے خرید و فروخت کرنی ہوتی تو ان کے ووٹ بہت زیادہ ہوتے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو 53 ووٹوں کی ضرورت تھی جب کہ رائے شماری کے بعد گنتی میں اسے صرف 50 ووٹ حاصل ہو سکے۔ ووٹنگ میں 100 ارکان سینیٹ نے حصہ لیا۔ پانچ ووٹ مسترد ہوئے اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو 45 ووٹ ملے، جب کہ ایوان میں حکومتی ارکان کی تعداد محض 36 ہے۔